چین امریکہ سربراہی " کلاؤڈ ملاقات " چین کے عظیم الشان تصورات اور امریکہ کی تنگ سوچ کی آئنہ دار

2022/03/22 15:30:04
شیئر:

حال ہی میں چین اور امریکہ کے سربراہان  کے درمیان دو گھنٹے تک جاری رہنے والی "کلاؤڈ  ملاقات " نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔دنیا کے تقریباً تمام بڑے  میڈیا نے اس  ٹیلی فونک بات چیت کی کوریج کی ۔  اس ملاقات کے حوالے سے  چینی پریس ریلیز  1,600  الفاظ پر مشتمل ہے ،جس کے  مواد میں چین-امریکہ تعلقات، آبنائے تائیوان کے مسئلے، یوکرین کی صورتحال سمیت  مختلف پہلو  شامل ہیں۔کہا جا سکتا ہے کہ  یہ پریس ریلیز  تفصیلی، شفاف اور گفتگو کے مواد کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ، وائٹ ہاؤس کا پریس ریلیز  محض 170 الفاظ  پر مشتمل ہے، اور اس کے بھی نصف سے زائد   حصے میں یوکرین کے مسئلے کا تذکرہ کیا گیا  ہے  ۔  اس سے ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ عالمی امن اور استحکام  کے حوالے سے چین  اپنی  ذمہ داری اور  عالمی حالات کے تناظر میں اپنے تصورات  کی روشنی میں حل پیش کر رہا ہے  جبکہ امریکہ   اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے چھوٹی  اور تنگ سوچ کا مظاہرہ کر رہا  ہے۔

تائیوان کا مسئلہ چین امریکہ تعلقات میں کلیدی اہمیت  کا حامل مسئلہ ہے۔ تائیوان کے معاملے کے بارے میں، بائیڈن نے اس ملاقات میں اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ "نئی سرد جنگ" لڑنا نہیں چاہتا، چین کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اتحادی تعلقات کو مضبوط بنا کر چین کی مخالفت نہیں کرتا، "تائیوان کی علیحدگی  " کی حمایت نہیں کرتا ، اور چین کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ یہ بیان چار ماہ قبل صدر شی جن پھنگ کے ساتھ  ورچوئل ملاقات کے دوران دیے گئے بیان سے کوئی مختلف نہیں ہے۔ بائیڈن کابیانیہ  بہت خوبصورت ہے ، لیکن وائٹ ہاؤس کی پریس ریلیز میں اسے محض اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی تائیوان کے معاملے پر اور چین امریکہ تعلقات میں بہتری کے معاملات میں دلچسپی اور خلوص کا فقدان ہے، جس سے یہ بھی  واضح ہوتا ہے کہ بائیڈن کا بیانیہ  بہت مثبت منظر  پیش کرتا ہے  ، لیکن اس کا کوئی عملی نتیجہ نہیں ہے۔ متعدد  امریکی سیاست دان بدستور "تائیوان کی علیحدگی  " پسند قوتوں کو غلط اشارے  دیتے رہے ہیں،اور تائیوان کے مسئلے پر تشویش میں ذرا بھی کمی نہیں ہوئی ہے۔ قدیم چین کے عظیم مفکر کنفیوشس نے کہا تھا کہ ’’اعتماد کے بغیر   وہ لوگ کچھ بھی  نہیں کر سکتے ہیں ۔‘‘ واقعی اگر ایک  شخص کی  کوئی ساکھ نہیں ہو گی  تو وہ معاشرے میں قدم جمانے کے قابل نہیں رہے گا۔یہ ایک انسان کے لیے اتنا ہی سچ ہے اور  ایک ملک کے لیے بھی ایسا ہے ۔

اب ہم بات کرتے ہیں یوکرین کی طرف  جس کو امریکہ   موجودہ کلاؤڈ  ملاقات کے دوران سب سے زیاد توجہ دے رہا  تھا ۔ صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ اولین ترجیح بات چیت اور گفت و شنید کو جاری رکھنا، شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنا، انسانی بحرانوں کو روکنا اور جلد از جلد فائر بندی کرنا ہے۔ چین امن کے لیے اپنی پوری کوشش کرنے پر آمادہ ہے اور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔ یہ چین کا رویہ اور موقف ہے۔پھر ہم دیکھیں گے کہ  بائیڈن نے کیا کہا؟ وائٹ ہاؤس کی پریس ریلیز میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اگر چین روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کے دوران روس کو مادی مدد فراہم کرتا ہے تو اس کے اثرات اور نتائج   بہت سنگین ہو ں گے ۔ چین پر اس قدر  واضح طور پر دباؤ  ڈالنے اور دھمکیاں دینے سے کوئی  فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ خدشہ ہے کہ کیا اپنے مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے امریکہ کی نظر میں دوسرے ممالک کے لوگوں کی جان کی قیمت محض ایک پیادے کی سی ہے؟ امریکہ نے  اپنی نام نہاد مطلق حفاظت کے حصول  کے لئے اور ایک بار پھر اپنی بالادستی کی سوچ  دکھانے کے لیے نیٹو کی مشرق کی طرف مسلسل توسیع  کی ہے اور  بالاآخر یوکرین کو جنگ کی آگ کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔

عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے چین نے اپنے قول و فعل سے بھرپور محنت کی ہے۔ چین کی کوششیں چین کی ذمہ داری کے احساس کی عکاسی کرتی ہیں ۔لیکن   امریکہ دنیا کے سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھنے میں  کیا کردار  ادا  کر رہا ہے؟