چوبیس تاریخ کو نیٹو نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر نیٹو
سربراہی اجلاس میں امریکی اور یورپی رہنماؤں کی شرکت کی تصویر جاری کی۔ عمدگی سے
ڈیزائن کردہ اس منظر سے دنیا کو پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ نیٹو "ایک بار " پھر
واپس آ چکا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن بھی سربراہی اجلاس کے بعد یہ اعلان کرنے کے شدت
سے منتظر نظر آئے کہ نیٹو پہلے کی طرح "مضبوط اور متحد" ہے۔
کیا یہ واقعی سچ ہے؟ دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد کے اندر
"قانونیت کے بحران" اور بڑی اختلافات کو کوئی بھی چالاکی چھپا نہیں سکتی ہے۔ سرد
جنگ کی پیداوار کے طور پر "سابق نیٹو" کو واپس آنے کی قطعاً ضرورت نہیں
ہے۔
امریکہ کے لیے، نیٹو "بلاک سیاست" میں مشغول ہونے کا ایک اہم ذریعہ اور اپنی
بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک فوجی آلہ ہے۔ تاہم، امریکہ اور یورپ کے درمیان
پیچیدہ اختلافات کی بناء پر امریکی دعویٰ کے برعکس نیٹو کا اسی رفتار سے چلنا مشکل
ہے۔
یوکرین کی ہی مثال لی جائے تو اگرچہ یہ اتحادی روس کے خلاف قدرے سخت رویے کے حامی ہیں لیکن امریکہ اور یورپ کے مفادات قدرے مختلف ہیں۔ یورپ کے لیے توانائی کے تحفظ کی صحیح معنوں میں ضمانت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب یوکرینی بحران پرامن طریقے سے جلد از جلد حل کر لیا جائے۔ امریکہ کو یقیناً یہ معلوم ہے لیکن وہ یورپ کی طرح "متفکر" نہیں ہے۔ امریکہ اس آگ کو ہوا دے رہا ہے اور اب بھی مغربی دنیا کا "لیڈر" بنتے ہوئے اپنے اتحادیوں پر روس کو "گھیرنے" کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے اور اپنی بالادستی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
جیسا کہ کینیڈین جنگ مخالف تنظیم "ہیملٹن آرمسٹائس الائنس"
کے سربراہ کین اسٹون نے کہا، نیٹو امریکہ کی زیر قیادت ایک جارحانہ فوجی تنظیم ہے
جو اپنے چارٹر کے مطابق، طویل عرصے سے اپنے وجود کا مفہوم کھو چکی ہے۔
آج، روس
اور یوکرین کے درمیان تنازعہ کو ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ یہ
سوال کر رہے ہیں کہ یوکرین کا بحران کہاں سے آیا ہے؟ آج، اس بحران کو شروع کرنے
والے کے پاس پرامن حل کے لیے نہ تو خلوص ہے اور نہ ہی آمادگی، اور وہ اب بھی اپنے
فائدے کے لیے دوسروں کا خون بہانے پر غور کر رہا ہے۔ کیا یوں امریکہ اپنے مغربی
اتحادیوں کے اعتماد کے قابل ہے؟