30سے 31 مارچ تک، چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای صوبہ آنہوئی کے شہر تونشی میں افغان ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے تیسرے اجلاس کی صدارت کریں گے۔اس اجلاس میں افغانستان کی صورتحال میں استحکام کو مشترکہ طور پر فروغ دینے کے لیے تبادلہ خیال کیا جائے گا تاکہ اگلے مرحلے میں افغان عوام کی حمایت اور مدد کی جا سکے۔چینی وزیر خارجہ نے حال ہی میں افغانستان کا دورہ بھی کیا ہے جو افغان عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے کسی اعلیٰ سطحی چینی عہدیدار کا پہلا دورہ بھی ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین افغانستان کی پرامن تعمیر نو کے لیے فعال طور پر کام کر رہا ہے اور پر امید ہے کہ جنگ زدہ ملک جلد از جلد بہتر ہو جائے گا۔ چین نے افغانستان کی پرامن تعمیر نو کے لیے اپنی استعداد کے مطابق ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال، چین کے اعلیٰ رہنماؤں نے افغانستان کے بارے میں ایس سی او اورسی ایس ٹی او کے رکن ممالک کے رہنماؤں کے مشترکہ سربراہی اجلاس میں شرکت کی ، چین نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی دو مرتبہ شرکت کی ہے اور افغان عبوری حکومت کے سربراہ سے چین کے شہر تھیان جن اور قطری دارالحکومت دوحہ میں ملاقاتیں کی ہیں۔
اسی طرح افغانستان کو 50 ملین ڈالرز سے زائد مالیت کی خوراک، ادویات، موسم سرما کا سامان اور دیگر امداد فراہم کرنے سے لے کر افغان چلغوزے کی درآمد کے لیے 36 چارٹرڈ پروازوں کے انتظامات تک جس سے 22 ملین ڈالر سے زائد کی آمدن ہوئی، چین عملی اقدامات کے تحت افغان عوام کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔
افغان عوام اکثر یہ جملہ کہتے ہیں کہ "چین واحد بڑا ملک ہے جس نے افغانستان کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا" یہ جذبات چین اور افغانستان کے درمیان طویل المدتی دوستی کی حقیقی منظر کشی ہیں۔ ایک قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے، چین کا موقف ہے کہ افغانوں کا مستقبل خود اُن کے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ، اور کسی بھی بیرونی طاقت کو افغانستان کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کا چین میں منعقد ہونے والا تیسرا اجلاس ایک بار پھر گواہی دے گا کہ چین ایک مخلص دوست ہے جو افغانستان میں بہتر ی کی امید رکھتا ہے، اور چین ہمیشہ عالمی امن کو برقرار رکھنے کی ایک طاقتور قوت ہے۔