27مارچ کو امریکی صدر جو بائیڈن یورپ کے تین روزہ دورے کے بعد واپس واشنگٹن پہنچ
گئے۔ امریکی ویب سائٹ"پولیٹیشن" کے مطابق، اس دورے سے یوکرین کے بحران کے حل کے لیے
"کوئی ٹھوس جواب نہیں ملا"۔ اس کے برعکس، امریکہ کی طرف سے توانائی اور فوجی سلامتی
کے حوالے سے پیش کردہ تجاویز کا سلسلہ نہ صرف یورپ کی فوری ترجیحات کو حل کرنے میں
ناکام رہا ہے، بلکہ یوکرین بحران کی آگ پرتیل ڈال رہاہے۔
امریکی رہنما نے
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں تقریر کرتے ہوئے بے دھڑک یہ کہا کہ پوٹن "اقتدار
برقرار نہیں رہ سکتے۔" اس بات نے یوکرین کے بحران سے روس کے لیے رکاوٹیں کھڑی
کرنے، یورپی یونین کو کمزور کرنے اور بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے واشنگٹن
کاحقیقی منصوبہ آشکار کر دیا ہے ۔
اس حوالے سے فرانسیسی صدر ایمینوئیل میکرون
نے اس بات پر زور دیا کہ فرانس کا مقصد سفارتی ذرائع سے جنگ بندی اور فوجیوں کا
انخلا کرنا ہے اور ہمیں کسی بھی طرح کی بات اور عمل سے بحران کو بڑھنے نہیں دینا
چاہیے۔اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور یوکرین کے تنازعے سے نمٹنے میں امریکہ
اور یورپ کے درمیان واضح اختلافات ہیں۔
اس وقت جب یورپ، تیل اور گیس کی بڑھتی
ہوئی قیمتوں کے دباؤ میں ہے، امریکہ اب بھی یورپی یونین کو ایل این جی فروخت کرنے
کا خواہشمند ہے اور زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرتے ہوئے یورپ کو مزید یر غمال
بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بالادستی کی اس منطق میں، ہمیشہ صرف "امریکہ فرسٹ" ہی
ہوگا اور اس میں کوئی "اتحادی اور شراکت دار" نہیں ہوگا۔ یورپ کے لیے، حقیقی سلامتی
ایک متوازن، موثر اور پائیدار علاقائی سلامتی کا ڈھانچہ تشکیل دینے میں ہےنہ کہ
مشرق اور مغرب کے درمیان تقسیم کی لکیر کو دوبارہ کھینچے جانے میں ہے۔ یورپ پر
امریکہ نے بار بار وار کیے ہیں اور اس مرتبہ یورپ کو وہی پرانی غلطیاں نہیں دہرانی
چاہئیں۔