حال ہی میں نیٹو نےبیلجیئم میں وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں نیٹو کے
سیکرٹری جنرل جنز سٹولٹنبرگ نے کہا کہ نیٹو کی نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے "چین
کو نشانہ بنانے" پر غور کرناچاہیئے۔تجزیہ نگاروں کی رائے میں نیٹو کے اس اجلاس
میں بحث کا موضوع یوکرین کا مسئلہ تھا لیکن ، چین پر بے جا حملہ کیا گیا جس کا اہم
مقصد تنازعات کی جانب سے توجہ منتقل کرنا،محاذ آرائی کو ہوا دینا اور اپنے لیے
فوائد کا حصول ہے۔بیس سے زائد برسوں میں نیٹو نے پانچ دفعہ مشرق کی جانب توسیع کی
جو روس-یوکرین تصادم کا باعث ہے۔اس کے بعد نیٹو نے بارہا یوکرین کو فوجی امداد
فراہم کی اور اس بحران کو مزید سنگین بنایا ہے۔نیٹو کا مقصد امریکہ کی بالادستی کو
برقرار رکھنا ہے جس کے لیے علاقائی تصادم اور بے قصور عوام کی جانوں
کو قربان کیا جا رہا ہے۔
سرد جنگ کافی عرصہ پہلے ختم ہو چکی ہے اور ایشیا و
بحرالکاہل "کولڈ وارمشین" کا خیرمقدم نہیں کرتےہیں۔آسیان اور بھارت نے اس بحران میں
کسی فریق کو منتخب کرنے سے انکار کر دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایشیاو بحرالکاہل کے
بیشتر ممالک آزاد اور چوکس ہیں، وہ جانتے ہیں کہ امن و امان کا حصول بے حد مشکل ہے
اور اس کی قدر کرنی چاہیے۔
معیشت کی مشکل بحالی کے پیش نظر ایشیا و
بحرالکاہل خطے کو سرد جنگ کی سوچ اور گروہی محاذ آرائی کی بجائے، امن،اتحاد اور
تعاون کی ضرورت ہے ۔ذہنی طور پر مفلوج نیٹو ، جتنے بھی خیالی دشمن بنالے ، پھر بھی
زندہ نہیں ہو گا۔