چوبیس اپریل کو ساتواں چائنا اسپیس ڈے منایا گیا۔رواں سال کا موضوع ہے "خلا، خوابوں میں روح پھونکتی ہے " ۔حالیہ برسوں میں چین نے خلائی تحقیقات میں بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ساتھ ہی عالمی برادری کے ساتھ تعاون کو فروغ دیتے ہوئے بنی نوع انسان کے مشترکہ خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
خلائی شعبے میں عالمی تعاون کو فروغ دینے کےلیے چوبیس تاریخ کو چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن نے اعلان کیا کہ چین، سیٹلائٹ کے ڈیٹا کے مشترکہ استعمال کو فروغ دے گا۔اس کے ساتھ چین نے اقوام متحدہ کے "خلا کے اشتراک"انیشیٹیو کے تحت چین کے خلائی اسٹیشن کو خلا میں انسانوں کا مشترکہ گھر بنانے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اٹھارہ اپریل کو چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے بیرونی خلائی امورکے تعاون سےچینی خلائی اسٹیشن میں بین الاقوامی تعاون کے منصوبوں کی پہلی کھیپ نافذالعمل ہورہی ہے۔تاریخ میں اس قسم کے منصوبے کو پہلی مرتبہ یو این کے تمام رکن ممالک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔اس وقت کل سترہ ممالک اور تیئیس اداروں کے نو منصوبوں کو چینی خلائی اسٹیشن کے سائنسی تجربات کی پہلی کھیپ کے منصوبوں میں شامل کیا گیا ہے ،ان میں رسولی اور بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا پر تحقیق کے منصوبے بھی شامل ہیں۔
پاکستان ،چائنا ایرواسپیس کا اہم شراکت دار ہے۔چین کے راکٹس نے کئی مرتبہ پاکستانی سیٹلائٹس کو خلا تک پہنچایا ،چینی ساختہ بیدو نیویگیشن سسٹم کی گلوبل تکمیل کے بعد چین سے باہر اس کا استعمال کرنے والے پہلے ممالک میں پاکستان شامل ہے، علاوہ ازیں دونوں فریقوں نے انسان بردار خلائی شعبے میں بھی تعاون کا آغاز کیا ہے۔دونوں ممالک نے 2019 میں انسان بردار خلائی سرگرمیوں میں تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے، ستائیس ستمبر دو ہزار اکیس کو شینزو -۱۲ انسان بردار خلائی جہاز کے زمین پر واپس آنے کے بعد ایک تقریب میں خلابازوں کے ساتھ خلائی سفر کرنے والے سامان کو عام کیا گیا جن میں خلا میں بھیجا جانے والا چین اور پاکستان کا پرچم بھی شامل تھا،جوکہ چین پاک سفارتی تعلقات کے قیام کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر چین پاک روایتی دوستی کا ایک اور شاندار تجربہ ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ چینی لوگ خلا ئی تحقیقات میں اپنی زمین کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔سنہ 1987 میں چین نے پودوں کے بیج خلا میں پہنچائے اور اب خلا میں کل 200 سے زیادہ نئی انواع کی افزائش کی گئی ہے۔سولہ اپریل کو واپس آنے والا خلا باز ، خلا سے بارہ ہزار بیج بھی اپنے ساتھ زمین پر واپس لائےہیں۔خلا میں افزائش کی جانے والی کئی اقسام اب عام لوگوں کی میز پر بھی پیش کی جا چکی ہیں ۔ہائی نان کے خلا میں بیجوں کی افزائش کرنے والے مرکزکے انجینئر یاو تھونگ نے بتایا کہ بیجنگ کی مارکیٹ میں تیس فیصد اسٹرابیری خلائی بیج سے اگتی ہیں جن کا سائز انڈے جتنا ہے۔خلائی ماحول کا تجربہ کرنے والے کیلے ،مرچ اور ٹماٹر جیسے پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں بڑا اضافہ ہوا ہے اور اس کے پک کر تیار ہونے کا دورانیہ بھی کافی مختصر ہو چکا ہے۔اس وقت ان اقسام کی تعداد اور اس کے استعمال کے لحاظ سے، چین دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور اس سے دو کھرب یوان سے زائد کا اقتصادی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
چاند سے مریخ تک،سیٹلائٹ سے خلائی اسٹیشن تک ،خلا کی تحقیقات میں چین کے قدم مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔خواہ خلائی اسٹیشن میں تجرباتی منصوبے ہوں،یا خلا میں افزائش کیے جانے والے پھل ،ان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خلا میں کی جانے والی تحقیقات زمین پر تمام انسانوں کی بھلائی کے لیے ہیں ۔