امریکہ کی نیشنل براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق، 4 تاریخ کو امریکہ میں کووڈ-۱۹ کی وبا نے ایک نیا المناک سنگ میل عبور کیا - امریکہ میں کووڈ-۱۹ سے مرنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ یہ ایک حیران کن تعداد ہے، امریکہ کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 330 میں سے ایک امریکی وبا سے مر گیا ۔
دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر، امریکہ "دنیا کا پہلا ملک ہے جو اس وبا سے لڑنے میں ناکام رہا" ایسا کیوں ہوا؟ "انسانی زندگی پر مفادات کو ترجیح دینا" ، شاید یہی بنیادی وجہ ہے کہ "امریکی طرز کی انسداد وبا" انسانی حقوق کی تباہی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ کووڈ-۱۹ کی وبا پھیلنے کے آغاز میں، اس وقت کی امریکی حکومت نے سائنسی انسداد وبا کے معاملے پر سیاست کی: اس نے اندرونی طور پر وبا کی صورتحال کی کشیدگی کو چھپایا اور بیرونی طور پر دوسرے ممالک کو بدنام کیا۔ موجودہ حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد، "الزام تراشی" کے لیے اس نے وائرس کے ماخذ کا پتہ لگانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو استعمال کرنے کا تماشا کیا۔ اس طرح کے سیاسی جوڑ توڑ سے امریکی سیاستدانوں کے مفادات تو پورے ہوئے لیکن ان کی قیمت امریکی عوام نے اپنی جانوں کی قربانی سے چکائی ۔
جو جانیں ضائع ہوئی ہیں وہ غم زدہ ہیں اور جو زندہ ہیں وہ مسلسل عذاب میں ہیں۔ 200,000 امریکی بچے "کووڈ یتیم" ہو چکے ہیں؛ رہائش، خوراک اور ایندھن کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں، اور لاکھوں امریکی اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں. ان تلخ حقائق نے ان امریکی سیاستدانوں کی خود غرضی اور بے عملی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے جو "انسانی حقوق" کی منافقانہ باتیں کرتے ہیں.