چند روز قبل جاپانی وزیر اعظم فومیو کشیدا نے ایک خطاب کے دوران آئین میں ترمیم کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اسے جلد از جلد حاصل کیا جائے گا۔اس کے بعد انہوں نے برطانیہ کے اپنے دورے کے دوران کہا کہ "کل کا مشرقی ایشیا یوکرین بن سکتا ہے" ۔ انہوں نے کہا کہ جاپان اور برطانیہ جاپانی سیلف ڈیفنس فورسز اور برطانوی فوج کے درمیان "باہمی رسائی" سے متعلق اصولی اتفاق رائے تک پہنچ چکے ہیں۔
رواں سال جاپان کے "امن آئین" کے نفاذ کی 75 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ تاہم جاپانی سیاست دانوں کی کارروائیوں کا ایک سلسلہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امن پسندی کے راستے سے مسلسل ہٹ رہے ہیں۔ جاپانی رہنما اکثر بیرونی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے امن پسند آئین کی بندشوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ جاپان کو ایک قومی دفاعی قوت قائم کرنے اور سفارتی جنگ میں حصہ لینے کا حق حاصل ہو۔
75 سال قبل دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد ایک نیا آئین جاری کیا گیا تھا۔ آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپان جنگ کی شروعات کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دے گا۔ اس مقصد کی خاطر جاپان ، زمینی، بحریہ، فضائیہ اور دیگر جنگی طاقتوں کو برقرار نہیں رکھ سکتا ہے ۔ اس لیے جاپان کے نئے آئین کو امن پسند آئین بھی کہا جاتا ہے۔
2007 میں، آبے شنزو کی حکومت نے آئینی ترامیم کو فروغ دینے کے لیے پہلا قدم اٹھایا۔ موجودہ وزیر اعظم کشیدا کے اقتدار میں آنے کے بعد، وہ بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ متعلقہ ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے گا ۔ روس اور یوکرین کے درمیان موجودہ تنازعہ سے ایسا لگتا ہے کہ جاپانی سیاسی قوتوں کو آئین میں ترمیم کا ایک نیا بہانہ مل گیا ہے۔ وہ سلامتی کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کو بے صبری سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ صرف آئین میں ترمیم کی صورت میں ہی جاپان کی سلامتی وغیرہ کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
بیرونی دنیا نے دیکھا کہ فومیو کشیداکے حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والے چھ ملکی دورے کے دوران، بہت سارے ایشیائی ممالک نے ان نام نہاد بیرونی خطرات پر محتاط ردعمل کا اظہار کیا جنہیں جاپان بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایشیائی ممالک مشکل سے حاصل شدہ امن کی قدر کرتے ہیں۔ جاپانی حکومت کو اندرون اور بیرون ملک امن پسند عوام کی آوازوں کو سننا چاہیے، تاریخ کے اسباق سے سبق سیکھنا چاہیے اور پرامن ترقی کی راہ پر گامزن رہنا چاہیے۔