سات مئی کو مقامی
وقت کے مطابق شمالی آئرلینڈ میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ نتائج
کے مطابق شمالی آئرلینڈ کے لیے "بریگزٹ" کی وکالت کرنے والی جماعت "سن فین" نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ یوں
"سن فین" 101 سالوں میں شمالی آئرش پارلیمنٹ
کو کنٹرول کرنے والی پہلی قوم پرست جماعت بن گئی ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ سن
فین کی جیت یقیناً شکست خوردہ برطانوی حکومت کے لیے نئی مشکلات پیدا کرے
گی۔
شمالی آئرلینڈ کا مسئلہ برطانوی
استعماری پالیسی کی باقیات میں شامل ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ ہے، جس نے طویل مدتی
تنازعات کو جنم دیا ہے۔ 1998 میں برطانوی اور آئرش حکومتوں اور شمالی آئرلینڈ میں
تنازعہ کے فریقوں نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، لیکن ابھی بھی اختیارات کی تقسیم
جیسے مسائل پر شمالی آئرلینڈ میں برطانوی حامی دھڑوں اور آزاد دھڑوں کے درمیان
تنازعات موجود ہیں۔2016 میں برطانیہ کے یورپی یونین سے
انخلاء کے لیے ووٹ دینے کے بعد شمالی آئرلینڈ ، برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان
تجارتی تنازعات کا مرکز بن چکا ہے۔ جنوری 2022 میں، برطانیہ اور یورپی یونین نے
شمالی آئرلینڈ پروٹوکول پر مذاکرات کا پہلا دور منعقد کیا، لیکن ابھی تک کوئی پیش
رفت نہیں ہوئی ہے۔
سن فین نے ہمیشہ شمالی آئرلینڈ کو برطانیہ سے الگ کرکے "متحدہ آئرلینڈ" قائم کرنے کی وکالت کی ہے۔ روئٹرز کے تجزیے میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ سن فین کی جیت شمالی آئرلینڈ میں "برطانیہ کو چھوڑنے" کے حوالے سے قلیل مدت میں ریفرنڈم کا باعث نہیں ہو گی، لیکن اس کی علامتی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ شمالی آئرلینڈ میں برطانوی حامی جماعتوں کے صدیوں پر محیط تسلط کے خاتمے کی نشاندہی کرتی ہے۔دوسری جانب وبائی صورتحال، سپلائی چین اور "بریگزٹ" سے پیدا ہونے والے افرادی قلت کے مسائل اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متاثرہ برطانوی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔