چین کا پیشہ ورانہ تعلیم کا قانون یکم مئی 2022 سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس قانون کا مقصد چین کے صنعتی اپ گریڈنگ اور اقتصادی تنظیم نو کے مرحلے میں داخل ہونے کے بعدمختلف صنعتوں میں ہنرمند اور با صلاحیت کارکنوں کی فوری مانگ کو حل کرنا ہے اور چین کو مینوفیکچرنگ کے حامل ایک بڑے ملک سے مینوفیکچرنگ پاور میں تبدیل کرنے کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2025 تک چین کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے اہم شعبوں میں درکار ہنر مند مزدوروں کی تعداد میں 30 ملین کی کمی واقع ہو جائے گی۔اس لیے پیشہ ورانہ تعلیم کے قانون کا نفاذ چینی حکومت کی پیشہ ورانہ تعلیم کو بہتر طور پر آگے بڑھانے کی خواہش اور عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
چین کی طرح پاکستان کو بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں، پاکستانی حکومت ملک میں پیشہ ورانہ تعلیم میں پسماندگی کے مسئلے کو دور کرنے کے لیے مختلف ذرائع سے بین الاقوامی تعاون کی جستجو کر رہی ہے۔ 2016 میں، پاکستانی حکومت نے تقریباً 200,000 بے روزگار نوجوانوں کو فنی تربیت کے حصول میں مدد کی خاطر "وزیر اعظم یوتھ ٹریننگ پروگرام" کی تشکیل کے لیے 220 ملین امریکی ڈالر مختص کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے مختلف تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت میں 25 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں تمام سطحوں پر مقامی حکومتیں پیشہ ورانہ مہارت کی تربیت میں مزید بین الاقوامی تعاون پر زور دے رہی ہیں۔ "چین پاک اقتصادی راہداری" کی تعمیر اور ترقی کے ساتھ، پاکستان میں تمام صنعتوں میں پیشہ ورانہ اور باصلاحیت ہنر مندوں کی مانگ میں خوب اضافہ ہوا ہے۔ 2016 سے، پاکستان میں سالانہ نئی ہنرمند لیبر کی طلب تقریباً 2.4 ملین ہے، لیکن پاکستان میں موجودہ تربیتی صلاحیت طلب کا صرف 17 فیصد پورا کر سکتی ہے، اور مارکیٹ کی طلب اور رسد کی صلاحیت کے درمیان بہت بڑا فرق موجود ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ متعلقہ شعبوں میں غیر سرکاری اور بین الحکومتی تعاون پہلے ہی زوروں پر ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ سال کے آخر میں،چین کے شین زین انفارمیشن ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل کالج نے پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ بیورو ، لاہور میں علامہ اقبال پرونشل ٹیکنیکل کالج اور دیگر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر چائنا پاکستان ماڈرن ڈوئل ڈگری ٹیکنیکل ایجوکیشن جوائنٹ ڈیموسٹریشن پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے ۔ الیکٹرانک انفارمیشن کے شعبے میں چین کے معروف ووکیشنل ایجوکیشن کالج کے طور پر، مزکورہ شین زین کالج نے چار چینی کالجوں اور یونیورسٹیوں اور پاکستانی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون پر مبنی تعلقات قائم کیے ہیں، "دی بیلٹ اینڈ روڈ" پیشہ ورانہ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے منصوبے کو نافذ کیا ہے، اور ہنر مندوں کی مشترکہ تربیت کے لیے چین پاکستان ڈوئل ڈگری کیریئر کے تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان پیشہ ورانہ تعلیم کے تعاون کو کیسے مزید گہرا کیا جائے۔سب سے پہلے، میں سمجھتا ہوں کہ مزکری اور مقامی حکومتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی منصوبہ بندی کی مضبوطی، متعلقہ پالیسیوں سے آگاہی ، پیشہ ورانہ تعلیم میں بین الاقوامی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے دونوں اطراف کے ممتاز پیشہ ور کالجوں کی حوصلہ افزائی ، اور بتدریج ایک تعلیمی نظام قائم کرنا ضروری ہے۔دوسرا، دونوں ممالک کے درمیان پیشہ ورانہ تعلیم کے تعاون کو مسلسل فروغ دیا جائے، اور پیشہ ورانہ تعلیم کے تدریسی معیار کو بین الاقوامی معیار اور دونوں ممالک کے قومی حالات کے مطابق مرتب کیا جائے ۔تیسرا، متعلقہ چینی صنعتی و کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ پاکستان میں پیشہ ورانہ تعلیم کی " لوکلائزیشن" میں فعال طور پر حصہ لیں، اور چینی پیشہ ور کالجوں کو پاکستان میں فعال چینی صنعتی و کاروباری اداروں کے ساتھ مشترکہ طور پر اسکول چلانے کے لیے حوصلہ افزائی کریں، اور پیشہ ورانہ تعلیم کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ فنانسنگ میکانزم قائم کریں۔ اس کے علاوہ، حکومتوں، کاروباری اداروں اور تعلیمی اداروں کو نئی ٹیکنالوجیز کی بدولت دو طرفہ تعاون کے لیے معلومات کے باہمی رابطے کا پلیٹ فارم بنانا چاہیے، جو تدریسی پروگرام، پیشہ ورانہ معیارات، تشخیصی نظام، اور روزگار کی رہنمائی سمیت جامع حل فراہم کر سکتا ہے۔
جہاں مانگ ہے وہاں ترقی کی تحریک بھی ہے۔چونکہ چین اور پاکستان دونوں نے پیشہ ورانہ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ متعلقہ شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون تیزی سے ترقی کے مرحلے میں داخل ہو گا۔