امریکہ اور آسیان کے درمیان تاخیر سے ہونے والی خصوصی سربراہی کانفرنس 13 تاریخ کو واشنگٹن میں اختتام پذیر ہوئی۔ امریکہ کی طرف سے نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" کا ایک اہم حصہ سمجھے جانے والے اس سربراہی اجلاس کے اصل ارادے سے لے کر حتمی نتیجے تک بہت سے شکوک و شبہات اور تنازعات پیدا ہوئے۔ سربراہی اجلاس ختم ہونے کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں ٹھوس نتائج بہت کم رہے۔ تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ یہ امریکہ کی دھوکہ بازی کا ناگزیر نتیجہ ہے، کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایشیا میں اپنے دوستوں کے حلقے کو بڑھا رہا ہے، اور اصل میں وہ چین پر قابو پانے کے لیے گروہ سازی کی سازش کر رہا ہے۔
خود مختاری برقرار رکھنا آسیان کا مستقل مؤقف ہے۔ حالیہ برسوں میں، علاقائی معاملات میں آسیان کی مرکزی حیثیت کا احترام کرنے کا دعوی کرتے ہوئے، امریکہ نے نام نہاد "سہ فریقی سیکورٹی پارٹنرشپ" اور "چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ میکانزم" قائم کرکے آسیان کے اندرونی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔اس لئے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ نام نہاد "انڈو پیسیفک اکنامک فریم ورک" کو آسیان ممالک کی جانب سے اس سربراہی اجلاس میں پذیرائی کیوں نہیں ملی۔
ایشیائی ممالک خیر سگالی کے کسی بھی ایسے عمل کا خیرمقدم کرتے ہیں جو ایشیا کی پرامن ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہو، لیکن ایسے کسی اقدام کو قبول نہیں کریں گے جس سے علاقائی امن و استحکام اور علاقائی اتحاد اور تعاون کو نقصان پہنچے۔ امریکہ کی نیٹو کا ’’انڈو پیسیفک ورژن‘‘ بنانے اور صف آرائی کو ہوا دینے کی کوشش ایشیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔