چینی ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نےبائیس تاریخ کو گوانگ چو میں چین کے دو روزہ دورے پر آئے پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی جس کے بعد دونوں وزرائے خارجہ نے صحافیوں سے مشترکہ طور پر ملاقات کی۔
وانگ ای نے کہا کہ ہماری بات چیت نتیجہ خیز رہی ہے جس سے روایتی دوستی مزید مضبوط ہوئی ،باہمی سیاسی اعتماد مزید بڑھا اور باہمی تعاون کے حوالے سے اعتماد کو بھی مزید تقویت ملی ہے ۔ فریقین نے پانچ پہلوؤں پر اتفاق رائے کیا:
پہلا،چین اور پاکستان کا اتحاد اور تعاون تبدیل ہوتی دنیا میں استحکام کا اہم عنصر بن چکا ہے اور فریقین اپنی ترقی کے ساتھ مزید قریبی چین- پاک ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کو تیز کریں گے۔
دوسرا، پاکستان میں چینی باشندے کو نشانہ بنانے والا کوئی بھی دہشت گردانہ حملہ ناقابل قبول ہے اور چین- پاک دوستی کو نقصان دینے والی کوئی بھی مذموم سازش ناکام رہے گی۔فریقین اس پر متفق ہیں کہ پاکستان میں چینی اہلکاروں،اداروں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات اختیار کیے جائیں گے اور فریقین نے دہشت گردی پر کاری ضرب لگانےکے لیے تعاون کو فروغ دینے کی اپیل بھی کی ۔
تیسرا،چین -پاک تعاون ثمر آور اور وسیع امکانات کا حامل ہے ۔سی پیک کو بحفاظت،بخوبی اور اعلی معیار کے ساتھ فروغ دیا جائے گا۔توانائی،صنعت،زراعت،انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آمد ورفت کی بنیادی تنصیبات سمیت دیگر میدانوں میں تعاون کو مزید وسیع اور مضبوط کیا جائے گا،پاکستان میں صنعت کاری میں تیزی کے لیے مدد و تعاون کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ،آزاد تجارتی معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین تک برآمدات کو وسعت دینے میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔فریقین نے وبائی صورتِ حال کی مشکلات کے باوجود لازمی تبادلوں اور عملے کی آمد و رفت کے لیےسہولتیں فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
چوتھا، پاکستان نے بہت پہلے ہی چین کے پیش کردہ عالمی ترقیاتی انیشیٹیو اور عالمی سکیورٹی انیشیٹو کی حمایت کی اور چین اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔چین مختلف ممالک کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کے ۲۰۳۰ پائیدار ترقیاتی ایجنڈے کو عمل میں لانے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا خواہاں ہے۔
پانچواں،ایشیا میں امن و امان ،تعاون و ترقی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیئے۔سرد جنگ کی نظریات ،زیرو-سم گیم اور گروہی محاذ آرائی کی مخالفت کی جانی چاہیئے۔کھلے پن اور اشتراک پر مبنی علاقائی تعاون کو مضبوط بنایا جانا چاہیئے اور بات چیت کے ذریعے بڑےمسائل کو حل کیا جانا چاہیئے تاکہ علاقائی امن و ترقی کا مشترکہ تحفظ کیا جا سکے ۔