26مئی کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں چائنا پالیسی سے
متعلق اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ امریکی محکمہ خارجہ ایک "چائنا گروپ" قائم کرے
گا۔ بلنکن نے اپنے خطاب میں "چائنا تھریٹ تھیوری" پیش کرتے ہوئے چین کو "عالمی آرڈر
کے لیے سب سے سنگین طویل مدتی چیلنج" قرار دیا۔ ابھی چند روز قبل ہی، امریکی صدر
بائیڈن کے دورہ ایشیا نے نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" کو بھرپور طریقے سے فروغ
دیا ہے اور امریکی صدر تقسیم اور تصادم کو ہوا دینے کے لیے "چھوٹے حلقے" کی سفارت
کاری میں مصروف رہے۔
درحقیقت عراق پر چڑھائی، لیبیا اور شام میں
خانہ جنگی کو ہوا دینے سے لے کر ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری تک ، نیٹو کو
مشرق کی جانب توسیع کے لیے اکسانے سے لے کر یوکرین کے بحران اور پھر گروہی محاز
آرائی میں ملوث گروہوں کی تشکیل تک، امریکہ بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی
قوانین کا سب سے بڑا تباہ کنندہ ہے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ
ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے
امریکہ کو خود اپنے ملک میں مختلف تنازعات کا سامنا ہے۔ گیلپ کے 25 تاریخ کو جاری
کردہ تازہ ترین سروے نتائج کے مطابق مسلسل وسیع پیمانے پر فائرنگ واقعات، ریکارڈ
بلند افراط زر، اشیاء کی قلت، اور پٹرول کی بلند قیمتوں کے تناظر میں صرف 16 فیصد
جواب دہندگان نے ملکی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا۔ 83 فیصد عوام کا خیال ہے
کہ امریکہ "آف ٹریک" ہے۔ 24 تاریخ کو رائٹرز اور آئی پی ساس گروپ کے جاری کردہ تازہ ترین سروے سے پتہ چلتا
ہے کہ امریکی صدر بائیڈن کی مقبولیت کی درجہ بندی 36 فیصد تک گر چکی ہے، جو ان کے
دور صدارت کی کم ترین سطح ہے۔
اس تناظر میں بلنکن کے چین کو نشانہ بنانے
کا مقصد یہی تھا کہ موجودہ ملکی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جائے. بلنکن نے امریکی
وسط مدتی انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ووٹ مانگنے کی خاطر
" چائنا تھریٹ " کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔