امریکہ میں اٹھائیس تاریخ تک، پچھلے ایک
ہفتے میں یومیہ کووڈ۔19 کے تقریباً 110,000
نئے مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ اسی دوران چین کے شہروں بیجنگ اور شنگھائی میں وبا
کی لہر پر مؤثر طریقے سے کنٹرول پایا گیا ہے، اور انسداد وبا کی کوششوں کے نمایاں
نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق
2021 کے اواخر تک دنیا میں کووڈ۔19 کے باعث تقریباً 15 ملین اموات ہو چکی ہے، جب کہ چین میں نئے کیسز
اور اموات کی شرح بدستور دنیا میں سب سے کم ہے۔رواں سال 5
مئی تک، امریکہ میں مصدقہ کیسز اور اموات کی تعداد چین کے مقابلے میں بالترتیب 373
گنا اور 193 گنا زائد ہے۔ 4 مئی تک، امریکہ میں یومیہ 10,000 سے زیادہ نئے مصدقہ
کیسز سامنے آنے والے دنوں کی تعداد چین کے مقابلے میں 756 گنا زائد
ہے۔
چین بدستور "ڈائنیمک زیرو کووڈ پالیسی" پر
عمل پیرا ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ پالیسی وبا کی تشخیص اور اس کی روک تھام پر مبنی ہے
، تاکہ وبا کو بڑے پیمانے پر دوبارہ پھیلنے سے روکا جا سکے۔
چین دنیا کا سب سے
زیادہ آبادی والا ملک ہے جہاں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 267 ملین افراد موجود
ہیں۔ جاپان کی تاکوشوکو یونیورسٹی کے پروفیسر تومیزاکا ساتوشی نے حال ہی میں ایک
مضمون لکھا جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ اگر چین میں "ڈائنیمک زیرو کووڈ پالیسی"
کو ترک کر دیا گیا تو یہ وبا دیہی چین کے بڑے علاقوں میں پھیل سکتی ہے اور اس کا
دائرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین "ڈائنیمک زیرو کووڈ پالیسی" پر اصرار کرتا
ہے ۔
حقائق نے پوری طرح سے ثابت کیا ہے کہ "ڈائنیمک زیرو کووڈ
پالیسی" چین کے قومی حالات اور سائنسی قوانین کے مطابق ہے، اور اس کا اثر واضح ہے۔
اس وقت عالمی وبا بدستور بلند سطح پر ہے اور ایک غیر یقینی صورتحال درپیش ہے۔ چین
کم سے کم قیمت پر نہ صرف اپنے عوام بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کے لیے ذمہ دار انہ
رویہ اپناتے ہوئے "ڈائنیمک زیرو کووڈ پالیسی" پر عمل جاری رکھے گا۔