یکم جون کو، نائب
امریکی تجارتی نمائندہ سارہ بیانچی نے چین کے علاقے تائیوان کے نمائندوں کے ساتھ
ایک ورچوئل ملاقات کی جس میں نام نہاد امریکہ۔تائیوان "21 ویں صدی کے تجارتی
اقدام" کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ امریکہ کا یہ اقدام چین امریکہ کے تین مشترکہ
اعلامیوں میں کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی ہے اور فریقین کے تعلقات کو خطرناک
صورتحال سے دوچار کر دے گا ۔
چین۔امریکہ
تین مشترکہ اعلامیوں کے مطابق، امریکی فریق تسلیم کرتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک چین
ہے، تائیوان چین کا حصہ ہے، اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت چین کی واحد قانونی
حکومت ہے۔ اس مرتبہ، امریکہ تائیوان کے حکام کے ساتھ بات چیت اور ایک ایسے معاہدے
پر دستخط کا ارادہ رکھتا ہے جو خود مختار اور سرکاری نوعیت کا ہے اور ون چائنا
پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ اس سے بلاشبہ تائیوان کی علیحدگی پسند قوتوں کو غلط
اشارہ ملتا ہے۔ اس سے ایک بار پھر یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی فریق کے قول و فعل
میں تضاد ہے اور اس نے تائیوان کے معاملے پر بار بار اپنے وعدے سے خیانت کی
ہے۔
امور تائیوان کا تعلق چین کے
بنیادی مفادات سے ہے اور یہ چین امریکہ تعلقات کا سب سے اہم، حساس اور بنیادی
مسئلہ بھی ہے۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اگر تائیوان کے معاملے سے صحیح طور پر نہ
نمٹا گیا تو اس کے چین امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ موجودہ امریکی
حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بارہا وعدہ کیا ہے کہ وہ ون چائنا پالیسی پر قائم
رہے گی اور "تائیوان کی علیحدگی" کی حمایت نہیں کرے گی، لیکن اس کے حقیقی اقدامات
بیانات کے برعکس ہیں۔
چین کا اتحاد تاریخ کا عمومی رجحان ہے جسے کوئی بھی طاقت
نہیں روک سکتی ہے۔