رواں سال 7 جون بہت سے چینی خاندانوں کے لیے ایک بہت اہم دن تھا ، کیونکہ اس دن کالج/یونیورسٹی کے سالانہ داخلہ امتحان کا آغاز ہو رہا تھا ۔ ملک بھر سے 11.93 ملین امیدواروں نے امتحان میں حصہ لیا، اور یہ امتحان ان کی زندگی میں مستقبل کی راہ پر اہم اثر ڈالے گا۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں میں، نوجوان لوگ، خاص طور پر دیہی علاقوں میں، کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان کو اپنی تقدیر بدلنے کا ایک مؤثر طریقہ سمجھتے تھے۔ اس حقیقت سے بچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اُس زمانے میں چین میں شہروں اور دیہات کے درمیان امیر اور غریب کا فرق بہت واضح تھا۔ کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان پاس کرنے اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے گریجویشن کے بعد شہر میں رہنے اور بہتر ملازمت حاصل کرنے کے مواقع زیادہ رہے ۔ یہ دیہی رہائشیوں خاص طور پر غریب خاندانوں کے لیے بہت پرکشش ہے، جو کہ بہت سے دیہی طلبہ کے لیے محنت سے مطالعہ کرنے کا محرک بھی بن گیا ہے۔ آج، 40 سال سے زیادہ اصلاحات اور کھلےپن کے بعد، چین نے تیزی سے ترقی کی ہے۔ نوجوانوں کے پاس اپنی زندگی میں ترقی کے راستے میں بھی زیادہ انتخاب موجود ہیں۔ کالج /یونیورسٹی کا داخلہ امتحان اب ان کے خوابوں کو پورا کرنے کا واحد ذریعہ نہیں رہا ہے۔ تاہم، بہت سے نوجوان طلباء کے لیے، کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان بدستور ان کی زندگی کے مقاصد کی تکمیل کا ایک اہم راستہ ہے ۔
ہر سال کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں ایسے امیدواروں کا ایک خاص گروپ بھی ہوتا ہے ، وہ جسمانی محرومی کے شکار طلباء ہیں ۔ چائنا ڈس ایبلڈ پرسنز فیڈریشن کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مجموعی طور پر 57,500 معذور طلباء کو داخلہ دیا گیا ہے۔ رواں سال تمام شعبہ ہائے زندگی کی مشترکہ کوششوں سے ایسے 10,000 سے زائد خصوصی امیدواروں نے کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان میں مساوی طور پر حصہ لیا ہے ۔ سماعت اور بصارت سے محروم امیدواروں کے لیے خصوصی امتحانی کمرے قائم کئے گئے ہیں ، جس سے سماعت سے محروم امیدواروں کو اپنی سماعت کے آلات اور بصارت سے محروم امیدواروں کو اپنے میگنفائنگ گلاسز اور ڈیسک لیمپ لانے کی اجازت دی گئی ہے، اور امتحان کا وقت تیس فیصد بڑھا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، چین نے 2014 میں پہلی بار کالج /یونیورسٹی کے داخلہ امتحان کے بریل ٹیسٹ پیپر کا استعمال کیا تھا، اور ایک نوجوان طالبہ ہوانگ اینگ اس طریقے سے ووہان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے والی پہلی طالبہ بن گئیں ۔ رواں سال ہوانگ اینگ نے ڈاکٹریٹ کا امتحان پاس کیا یوں وہ چین میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی پہلی نابینا طالب علم بن گئیں ۔ درحقیقت، ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ برابری، شراکت اور اشتراک کے تصور کے تحت اور ہر ایک کے لیے انسانی حقوق کے مساوی حصول کی ضمانت کے تحت، چینی نوجوان مل کر اپنے خوابوں کو پورا کریں گے اور مشترکہ ترقی کی شاہراہ پر چلیں گے۔ روشن مستقبل کے لیے جستجو کریں گے۔
ایک قدیم چینی مصنف ہان یو نے کہا تھا کہ مطالعہ کے سمندر میں کامیابی کے کنارے پر پہنچنے کے لیے محنت ہی واحد طریقہ ہے۔ چین میں بہت سے طلباء اور خاندانوں کے لیے، کالج/یونیورسٹی کاداخلہ امتحان بلاشبہ بہت اہم ہے، کیونکہ یہ ان کے لیے اپنی زندگی کے خوابوں کو شروع کرنے کا ایک نیا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے، لیکن کوئی بھی ایک امتحان کی وجہ سے سب کچھ جیتے گا اور نہ ہی اپنی پوری زندگی ہارے گا ۔ اپنی پوری کوشش کرو، نوجوانو! صرف محنت کرنے والے نوجوانوں کو کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔ آپ کی آج کی کوششیں یقیناً مستقبل کی کامیابی کی بنیاد ہوں گی۔