مساوی تبادلہ خیال ، چین اور امریکہ کےدرمیان افہام و تفہیم کی بنیاد

2022/06/15 15:39:53
شیئر:

چین میں امریکی سفیر نکولس برنس نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک تصویر شائع کی جس میں  وہ  چین میں "فوشنگ" ہائی سپیڈ ٹرین  میں بیٹھ کر سفر  کر رہے ہیں۔ اپنی پوسٹ میں انہوں نے "فوشنگ" ہائی سپیڈ ٹرین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین نے انہیں بہت زیادہ متاثر کیاہے ۔اس پوسٹ کے نیچے  مختلف تبصروں میں بہت سے امریکیوں  نے برنس سے اپنے دلچسپی  کےسوالات پوچھتے ہوئےکہا کہ وہ   چین   کی تیز رفتار ریل دیکھ کر حیران ہوگئےہیں ۔ در حقیقت ، چین میں دس برس قبل  تیز رفتار ریل وے  کا آغاز ہوا تھا   ، لیکن پوسٹ پر موجود کمنٹس دیکھ کر یوں محسوس ہوتا  ہے کہ جیسے بہت سے امریکیوں کو ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ چین ہائی سپیڈ ریل کے دور میں داخل ہو چکا ہے ۔ یہ صورت حال ہمیں بتاتی ہے بہت سے امریکیوں کے پاس چین کے حوالے سے معلومات کا فقدان ہے۔ اس صورت حال کی   وجوہات کیا ہیں؟

انٹرنیٹ کی مقبولیت اور  اپنا دروازہ کھولنے کے بعد   چین اور امریکہ کے مابین  ایک دوسرے  کو جاننے کے مواقع  بہت زیادہ ہیں۔ نظریاتی طور پر ،  باہمی تفہیم کو فروغ دینا اتنا مشکل نہیں ہے  ۔ چین میں آ  کر اپنی آنکھوں سے  دیکھنا باہمی تفہیم کا بہترین طریقہ ہے ، لیکن عام لوگوں کے لئے چین آنا کوئی آسان نہیں ہے۔لہذا ان کا چین کا ادراک بنیادی طور پر امریکہ اور  مغربی میڈیا رپورٹس سے آتا ہے ۔ لیکن  امریکہ اور مغربی میڈیا نے  طویل عرصے سے مختلف نظریات اور ثقافتی تعصب کے ساتھ  چین کی ترجمانی کی ہے۔ انہوں نے مغرب اور یہاں تک کہ دنیا بھر سے بہت سارے لوگوں کو گمراہ کیا ہے ۔یہ ایسا ہی ہے جیسے   آپ کے پاس کسی شخص کو سمجھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے ، لیکن  اس موقع پر کوئی آپ کو بارہا  بتاتا رہے  کہ  یہ  شخص اچھا نہیں ہے، بہت برا ہے۔حالانکہ  یہ سارے جھوٹے الفاظ ہیں، لیکن  پھر  بھی آپ ان  غلط الفاظ  سے متاثر ہوں گے ، اور  آپ  اپنے منصفانہ  موقف اور درست  فیصلے سے محروم ہوجائیں گے۔

مختلف ممالک کے مابین  تبادلہ اور افہام و تفہیم دو طرفہ  ہونی چاہئے، ورنہ  باہمی  مفاہمت کا پل یقینی طور پر ٹوٹ جائے گا۔ ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی امور میں سرکردہ پوزیشن اور  دنیا کے  نمبر ون طاقتور ملک  کی حیثیت سے  امریکہ  کا چین کو سمجھنے کا مضبوط ارادہ نہیں ہے  ۔ ایک مثال کے طور پر ،  موجودہ عالمی وبا  کے پھیلاؤ  کے شروعات میں  امریکہ نے "چین اس وبا میں گر جائے گا" کا نظریہ  پیش کیا۔ چین نے وبا کی روک تھام و کنٹرول  کے لیے مؤ ثر اقدامات نافذ  کئے ، اور عالمی سطح پر سب سے پہلے وبا پر قابو پاتے ہوئے کاروبار و پیداوار  کو  بحال  کرتے ہوئے اچھے نتائج حاصل کئے ۔ اس سلسلے میں رواں سال پہلے پانچ ماہ کے  چین کے مثبت معاشی اعداد و شمار نے چین کی کامیابی کو ثابت کر دیا  ہے۔ ایسے حقائق سے امریکہ نے کیا سمجھا   ؟ متعدد  امریکی سیاستدانوں اور میڈیا  نے اپنے تعصبانہ بیانات سے چین کے انسداد وبا کے حوالے سے تجربے کے بارے میں ناپسندیدگی  کا اظہار کیا ۔ ان کی سوچ میں امریکہ  ایک مضبوط جمہوری ملک   ہے   ۔ وہ کیسے چین سے  سیکھ سکتا ہے۔ جب بعد میں اسے  چین  کے تجربات سے استفادہ کرنا پڑا ،تو بھی  انہوں نے بوجھل دل کے ساتھ ان اقدامات پر عمل درآمدکیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ   امریکہ میں وبا  سے  متاثرین   کی تعداد  اور  اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ، یہ کتنی بھاری قیمت ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ امریکہ کے سیاست دان  اور میڈیا  اس وبا سے کچھ سبق سیکھیں گے  ، تعصب کو ترک کریں گے،چین کے ساتھ  مساوی طور پر  بات چیت  کریں گے ، اور چین کے حوالے سے منصفانہ  رپورٹنگ   کریں گے ، کیونکہ صرف اس طرح ہم  ایک دوسرے کو بہتر   سمجھیں گے اور  امریکی عوام  ایک حقیقی چین کے بارے میں جان  سکیں گے ۔

امریکہ سمیت  متعدد مغربی ممالک گزشتہ دو سو سال سے دنیا کی سوچ پراثر انداز ہو رہے  ہیں۔ وہ اپنی سوچ کے مطابق  چین کو سمجھنے کے عادی  بن چکے ہیں۔ لہذا ، وہ  چین کی  تیز رفتار ترقی  اور چین  کے پائیدار ترقیاتی نمونے پر یقین نہیں کر سکتے  ۔ یہ پرانی سوچ کا نتیجہ ہے۔محض  یہ سوچ  خوفناک نہیں بلکہ   خوفناک بات یہ ہے کہ امریکہ چین کو غلط  سمجھتے ہوئے غلط فہمیوں اور اندھے تعصبات  میں ڈوب گیا ہے ، اور  اپنی بالادستی کے تصور سے چین کی ترقی کو دیکھتا ہے ۔ اگر ایسا ہو تو  تبادلہ خیال اور افہام و تفہیم کو کیسے آگے بڑھایا جا ئے گا ۔یہاں تک   میں ایک مشورہ دینا چاہتی ہو ں کہ وہ دوست جو  چین  کو جاننا چاہتے ہیں ،  یونیورسٹی آف کیمبرج  کے سینئر محقق مارٹن جیکس کی کتاب " When China Rule the World "  پڑھیں،  اس سے  آپ کو چین کو بہتر انداز میں  سمجھنے میں مدد ملے گی ۔