منشیات سے پاک دنیا، خواب نہیں ،ہم یہ کر سکتے ہیں

2022/06/24 15:31:25
شیئر:

 

"جب تک  افیون کا خاتمہ نہیں ہوتا، میں یہاں سے نہیں جاوں گا!" یہ چین-برطانیہ افیون جنگ کے موضوع پر فلمائی گئی چینی فلم "لن زی شو" کا ایک کلاسک جملہ ہے ۔ فلم میں چھنگ خاندان کے وزیر لن زی شو کی  متاثر کن کہانی بیان کی گئی جس نےلگ بھگ  1840 میں چین کے ساتھ برطانوی افیون کی تجارت کے خلاف لڑنے کے لیے چینی فوج اور شہریوں کی قیادت کی۔ منشیات کی لعنت سے دوچار ہونے والی قوم کے طور پر،  چینی لوگ  منشیات سے  سخت نفرت کرتے  ہیں، اسی لیے فلم ’’لن زی شو‘‘کے کلاسک جملے  ہر چینی کے دل پر نقش ہیں۔

اس سال 26 جون کو منشیات کے استعمال اور غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف 35 واں عالمی دن منایا جائے گا۔  منشیات  ایک طویل عرصے سے انسانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں، جس سے نہ صرف لوگوں کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہورہی ہے  ، بلکہ یہ  معاشی غربت، سماجی ماحول کو زہر آلود کرنے، اور غیر قانونی سرگرمیوں اور جرائم کو جنم دینے کا بھی سبب بن رہی ہیں ۔ یہ ایک ایسا عالمی عوامی خطرہ ہے جس کا تمام نوع انسانی کو سامنا ہے۔ عالمی برادری کی مسلسل کوششوں کے باوجود انسداد منشیات کی موجودہ صورتحال اب بھی سنگین ہے اور بہت سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔

منشیات کے نقصانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے  ہمیں یہ سمجھنا چاہیے  کہ یہ ایک جنگ ہے جس میں " بارود" کا دھواں نہیں ہے اور یہ ہم میں سے ہر ایک کی جنگ ہے۔ منشیات سے لڑنا اور زندگیوں  کی حفاظت کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا، انسداد منشیات کے کام میں مختلف ممالک کی حکومتوں کو مرکزی کردار ادا کرنا  چاہیے اور انسدادِ منشیات کی گورننس کے ایک مضبوط نظام کو قائم کرنے کے لیے پورے معاشرے کی شرکت کی حمایت کرنی چاہیے ۔

منشیات پر قابو پانے کے عظیم مقصد کے لیے بین الاقوامی تعاون ہی واحد راستہ ہے اور اس کی وجوہات کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انسداد منشیات کے عمل میں بہت سے پہلو شامل ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی مشترکہ کوششوں اور جامع انتظام ، قانون کے نفاذ، منشیات اگانے والے علاقوں میں متبادل شجرکاری، متاثرین کی صحت یابی  اور  متعلقہ تعلیم کے شعبوں میں ہم آہنگی اور تعاون کی مسلسل مضبوطی سے ہی ہم موثر طور پر منشیات سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی نشاندہی کی جانی چاہیے کہ انسداد منشیات کے بین الاقوامی تعاون کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور متعلقہ بین الاقوامی کنونشنز کے مقاصد اور اصولوں کے تحت عمل میں لایا جانا چاہیے، غیر سیاسی   اور عدم امتیاز کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، ممالک کو ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہیے، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ،برابری اور باہمی فائدے کے اصول کی روشنی میں کام کرنا چاہیےاور کسی قسم کا  امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے تاکہ بین الاقوامی تعاون کی اثر پذیری اور سب کے مشترکہ فائدے کو  یقینی بنایا جا سکے ۔

چینی حکومت نے ہمیشہ انسداد منشیات کے کام کو بہت اہمیت دی ہے، منشیات کے خلاف ہمیشہ "زیرو ٹالرنس" کا رویہ اپنایا ہےاور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے تصور پر کاربند رہا  ہے۔ایک بڑے اور  ذمہ دار ملک کا رویہ اپناتے ہوئے  چینی حکومت نے انسداد منشیات کے بین الاقوامی کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو دیانتداری سے پورا کیا ہے، منشیات کے عالمی مسئلے کی حکمرانی میں عملی  طور پر حصہ لیا ہے اور مشترکہ طور پر انسداد منشیات کے قانون کو نافذ کرنے والے عالمی  اقدامات میں شرکت کی  ہے۔ چین کا یہ رویہ اور عمل  متعلقہ عالمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے چینی حکومت کے احساس ذمہ داری کا عکاس ہے۔

اس سلسلے میں ایک عرصے سے منشیات کے مسئلے سے دوچار پاکستان کے  ساتھ چین کا تعاون خاص طور پر اہم  ہے اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ چین اور پاکستان نے دوطرفہ، علاقائی کثیرالجہتی اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے منشیات کے جرائم کے خلاف مشترکہ طور پر مقابلہ جاری رکھا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت کے بعد پاکستان کو  منشیات کے جرائم سے نمٹنے کے لیے علاقائی تعاون کا اہم  پلیٹ فارم حاصل ہو گیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان منشیات پر قابو پانے کے شعبے میں تعاون بھی ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے۔

 "انٹرنیشنل اینٹی ڈرگ ڈے" کو 35 سال گزر چکے ہیں۔ منشیات کے خاتمے کی حتمی منزل تک کا راستہ اب بھی کافی طویل ہےلیکن  ہم آخری دم تک لڑیں گے اور ہمت نہیں ہاریں گے کیونکہ اس کے سوا  ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ  نہیں ہے۔ "منشیات سے پاک دنیا،خواب نہیں ہے ،  ہم یہ کر سکتے ہیں"۔