نیپال کی کابینہ کے اجلاس میں حال ہی میں امریکہ کے ساتھ "اسٹیٹ پارٹنرشپ پروگرام" (ایس پی پی) تعاون کو فروغ دینے سے روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لوگوں نے دیکھا ہے کہ جب یہ فیصلہ کیا گیا تو نیپال میں تمام پارٹیوں اور فوج نے ایک ہی موقف کا مظاہرہ کیا، اور ان سب کا ماننا تھا کہ "ایس پی پی میں شمولیت نیپال کے مفاد میں نہیں ہے"۔ کچھ تجزیہ کاروں نے کہا کہ نیپالی فریق کے فیصلے کا مطلب ہے کہ امریکہ کی نام نہاد "انڈو پیسفک حکمت عملی" کو دھچکا لگا ہے۔
ایس پی پی پروگرام امریکی ریاستوں اور شراکت دار ممالک کے نیشنل گارڈ کے درمیان ایک تبادلہ پروگرام ہے۔ اسے 1990 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد متعلقہ ممالک کو سوویت یونین کے انہدام کے بعد اپنی قومی دفاعی افواج میں "اصلاح" کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ امریکی "ڈپلومیٹ" میگزین نے دو ٹوک انداز میں اس بات کی نشاندہی کی کہ "ایس پی پی امریکہ کے لیے انسانی ہمدردی کی کارروائی کی آڑ میں وسیع پیمانے پر سیاسی اور اسٹریٹجک اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کثیر مقصدی ٹول ہے۔" نیپال کی "کھٹمنڈو پوسٹ" نے نشاندہی کی کہ ایس پی پی اب امریکہ کی نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" کا حصہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل، امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اپنی چین پالیسی تقریر میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ چین کے ارد گرد اسٹریٹجک ماحول کو قائم کریں گے۔ امریکہ صرف چین پر قابو پانے کے لیے ایک اسٹریٹجک گھیراؤ بنانا چاہتا ہے۔ نیپال نے اس بار جو فیصلہ کیا ہے وہ امریکہ کی ’’انڈو پیسیفک حکمت عملی‘‘ پر ٹھنڈا پانی پھینکنے کے مترادف ہے اور یہ صرف شروعات ہوسکتی ہے۔ چونکہ متعلقہ ممالک اپنے مفادات کی بنیاد پر عقلی انتخاب کریں گے، اس لیے امریکہ کی طرف سے تجویز کردہ نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" جلد یا بدیر دیوالیہ ہو جائے گی۔