کیا یہ مذاق نہیں کہ جب برطانیہ کے اندر تقسیم دکھائی دے رہی ہے تب بھی بعض برطانوی سیاستدان ہانگ کانگ میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں؟ سی ایم جی کا تبصرہ

2022/07/03 16:51:41
شیئر:

ہانگ کانگ کی مادر وطن کو واپسی کی 25 ویں سالگرہ کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے  "چین برطانیہ مشترکہ اعلامیے " کے تحت برطانیہ پرہانگ کانگ کےباشندوں کی "تاریخی ذمہ داری "ہے اور "ہانگ کانگ سے دست بردار نہ ہونے " کا مضحکہ خیز سیاسی شو کیا ہے۔یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ" سابق سامراج" اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں  کہ ان کی وہ "سلطنت جس میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا"تھا، ایک مدت سے ختم ہو چکی ہے اور وہ ابھی تک ہانگ کانگ سمیت چین کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چینی اور برطانوی حکومتوں نے دسمبر 1984 میں چین برطانیہ مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے تھے۔ بیان کے مطابق یکم جولائی 1997 کو ہانگ کانگ کی مادر وطن میں واپسی کے بعد، برطانیہ کے پاس ہانگ کانگ پر اختیار، حکمرانی یا نگرانی کا کوئی حق نہیں ہے، یعنی اب برطانیہ کو ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔
 اب ہانگ کانگ دنیا کی سب سے آزاد معیشت، ایک بین الاقوامی مالیاتی و تجارتی مرکز اور شپنگ  سینٹر ہے۔ 25 سال قبل مادر وطن میں واپسی کے بعد سے، ہانگ کانگ کی ترقیاتی کامیابیاں سب پر عیاں ہیں۔ "ایک ملک، دو نظام"  کو بے حدکامیابی حاصل ہوئی ہے جو کہ پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہے۔ آج ہانگ کانگ کے معاشرے میں، ملک اور ہانگ کانگ سے محبت کرنا عوامی استصوابِ رائے  بن چکا ہے اب برطانوی سامراج کی جانب سے یہاں بگاڑ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
 برطانیہ میں سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی برطانیہ سے الگ ہونے کی آوازیں بے حد بلند ہو چکی ہیں ۔بورس جانسن حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ "ہانگ کانگ سے دست بردار نہیں ہوگا " صرف داخلی تنازعات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے، لیکن ایسا کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ 
ہانگ کانگ چین کا ہانگ کانگ ہے اور اس کا برطانیہ سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔