تین جولائی کو امریکی ریاست اوہائیو کی پولیس نے چند روز قبل اکرون شہر میں پولیس کی فائرنگ سے ہلاک کیے جانے والے ایک افریقی نژاد امریکی شخص جیرلینڈ واکر کی لائیو ویڈیو جاری کی۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ آٹھ پولیس اہلکاروں نے 90 سے زیادہ گولیاں چلائیں، اور فرانزک نے تصدیق کی کہ واکر کے جسم پر تقریباً 60 زخم تھے۔
4 جولائی کو امریکہ میں یوم آزادی منایا جارہا ہے لیکن اسی موقع پر واکر کے خون سے اس جشن پر ایک تاریک سایہ چھاگیا ہے۔ اکرون میں پولیس کی سفاکی کے خلاف متعدد مظاہرے کیے گئے ہیں اور وہاں یوم آزادی کی تقریب کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
"میپنگ پولیس وائلنس" نامی ویب سائٹ کے اعدادوشمار کے مطابق، امریکہ میں قانون کا نفاذ کرنے کے دوران پولیس تشدد کے باعث 2020 سے لے کر اب تک 2,563 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے 565 افریقی نژاد امریکی ہیں یہ تعداد کل تعداد کے 22 فیصد سے زیادہ ہے۔
امریکی طرز کے نظام میں نسل پرستی کی جڑیں امریکی معاشرے میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔ اس سال جون میں، کیلیفورنیا کی ایک خصوصی ورکنگ ٹیم نے 500 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ آج بھی امتیازی قوانین اور طرز عمل افریقی نژاد امریکیوں کو رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار سمیت دیگر شعبوں میں متاثر کررہے ہیں ۔
ہر جگہ پائے جانے والے امتیازی سلوک اور جبر کے پیچھے نہ صرف غلامی کی مجرمانہ تاریخ، سفید فام بالادستی کا نسلی ڈھانچہ اور سماجی ماحول وغیرہ کے عوامل موجود ہیں، بلکہ یہ امریکی سیاستدانوں کی پارٹی مقابلے بازی اور موثر حکمرانی میں ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔امریکہ میں اس سال وسط مدتی انتخابات ہوں گے اور دونوں جماعتیں اب سوچ رہی ہیں کہ ووٹ کیسے حاصل کیے جائیں؟ مگر کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ اقلیتوں کے مطالبات سنیں اور نسل پرستی کے مسئلے کو حل کیا جائے۔