نو جولائی کو انڈونیشیا کے شہر بالی میں ،چین اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے
درمیان 5 گھنٹے طویل ملاقات ہوئی جس میں فریقین نے چین-امریکہ تعلقات
اورباہمی تشویش کے بین الاقوامی اور علاقائی مسائل پر جامع اور تفصیلی تبادلہ خیال
کیا ۔
اس وقت سفارتی تعلقات کو غیر معمولی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے اور اس
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین-امریکہ کے تین مشترکہ اعلامیوں میں طے شدہ اصولوں
اور اس کے اصل مفہوم پر مؤثر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر 50 سال قبل
جاری ہونے والے "شنگھائی اعلامیے " کو لیجیے،
اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ چاہے کسی بھی قسم کے سماجی نظام کے حامل ممالک
ہوں، ہر ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کے اصولوں کی پابندی کی
جائے ، دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کی بجائےبرابری، باہمی مفادات
اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر کار بند رہا جائے۔ تاہم امریکہ نے چین کے
اندرونی معاملات میں بارہا مداخلت کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات کو نقصان پہنچایا
ہے ۔
حال ہی میں، چین کی پالیسی پر انٹنی بلنکن کےخطاب میں دعوی کیا گیا ہے
کہ"چین کے ارد گرد اسٹریٹجک ماحول تشکیل دیا جائے گا "۔ انہوں نے نیٹو کی جانب سے
اپنے اسٹریٹجک عمل کو ایشیا پیسیفک تک پھیلانے کا ہنگامہ اٹھایاہے۔ امریکہ مختلف
طریقوں سےچین پر دباو ڈالتا رہا ہے ، اس کے پیچھے نہ صرف وہ عوامل کارفرما ہیں جن
کی جڑیں بہت گہری ہیں اور جن کے باعث امریکہ ،چین- امریکہ سفارتی تعلقات کے قیام
کے اصل مقصد سے ہٹ جاتا ہے بلکہ امریکی سیاستدانوں کی طرف سے ووٹ کے حصول کے لیے
نام نہاد "سیاسی درستگی" کی موجودہ کوشش بھی کارفرما ہے۔ اس کی وجہ سے چین کے حوالے
سے امریکی تصورات میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں اور چین کے ساتھ اس کی پالیسی بھی
درست راستے سے ہٹ گئی ہے۔
چینی اور
امریکی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کچھ تعمیری ارادے بھی سامنے
آئےہیں جن میں برابری اور سود مند تعاون کے ذریعے ،چین-امریکہ کے مشترکہ ورکنگ گروپ
کی مشاورت کو فروغ دینا شامل ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے کا حصول ہو سکے۔ اس
کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اور صحت عامہ کے شعبے میں تعاون کو مضبوط بنانے پر بھی
اتفاق کیا گیا ہے ۔لیکن فی الحال چین-امریکہ تعاون میں کتنی ترقی ہو سکتی ہےاس کا
انحصار اس بات پر ہے کہ آیا امریکہ ،چین-امریکہ کے تین مشترکہ اعلامیوں کی پاسداری
کرسکتا ہے، آیا وہ چین کے بارے میں اپنی غلط فہمیوں کو دور کر سکتا ہے اور کیا وہ
حقیقی معنوں میں دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان طے پانے والے اتفاق رائے
پر عمل درآمد کر سکتا ہے۔