حالیہ دنوں جاپان کی 26 ویں سینٹ کے انتخابات مکمل ہوئے جن میں حکمراں جماعت
،لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے 63 نشستیں جیتیں، یہ سینٹ میں کل نشستوں کا نصف سے زائد
بنتی ہیں، آئینی ترمیم کی حمایت کرنے والی قوت کو بھی دو تہائی سے زائد نشستیں حاصل
ہوئیں ہیں جو آئینی ترمیم کا بل پیش کرنے کے لیے کافی ہو سکتی ہیں۔جاپانی وزیر
اعظم فومیو کیشیدا نے دعوی کیا ہے کہ وہ آئینی ترمیم کے عمل کو جلد از جلد آگے
بڑھائیں گے۔
لیکن یہاں قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے امیدواروں نے
افراطِ زر سے نمٹنے یا تنخواہوں کو بڑھانے کے وعدے کیے تھے جو کہ جاپانی شہریوں کی
دلچسپی کے معاملات ہیں،جب کہ انتخابات کےفوراً بعد سیاستدانوں نے تمام تر توجہ
آئینی ترمیم پر مبذول کر دی ہے جو کہ عوامی رائے کی نفی اور انتخابات سے پہلے کیے
گئےوعدوں کی خلاف ورزی ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد، جاپان نے ایک نیا آئین جاری
کیا، جس کے آرٹیکل 9 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپان کبھی بھی جنگ کا آغاز
نہیں کرے گا، بین الاقوامی تنازعات کو حل کرنے کے لیے دھمکی یا طاقت کا استعمال
نہیں کرے گا اور فوج قائم نہیں کرے گا۔اسی آئین کی بدولت جاپان نے ارد گرد کےممالک
کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا اور اقتصادی ترقی بھی حاصل کی۔اس لیے جاپانی عوام بھی
اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔جاپانی میڈیا کی رائے شماری کے مطابق 59 فیصد جاپانی
عوام آئین کے آرٹیکل 9 میں ترمیم کی حمایت نہیں کرتے ہیں ۔
جاپانی عوام کی رائے
، اردگرد کے ممالک کی مخالفت کے باعث ،فی الحال جاپان میں آئینی ترمیم کا ہدف
قابلِ دسترس نہیں ہے۔