ٹرمپ انتظامیہ کے سابق
قومی سلامتی مشیر بولٹن نے 12 تاریخ کو امریکی میڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں
اعتراف کیا کہ انہوں نے "دوسرے ممالک میں حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی میں
مدد کی تھی۔"
بولٹن کے بیان کا بین
الاقوامی سطح پر کافی چرچا ہے۔ بولیویا کے سابق صدر ایوو مورالس نے 13 تاریخ کو
سوشل میڈیا پر اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بولٹن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ
امریکہ "جمہوریت کا سب سے بڑا دشمن" ہے۔
درحقیقت، ایک طویل عرصے
سے یہ کوئی راز نہیں رہا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کی
منصوبہ بندی میں ملوث رہا ہے ،لیکن بولٹن کا امریکی حکومت کے سابق سینئر اہلکار کے
طور پر ڈھٹائی سے اعتراف غیر معمولی ہے۔یہ امریکی سیاست دانوں کی تسلط پسندانہ سوچ
کا فطری انکشاف ہے۔وہ خود کو "جمہوریت" اور "انسانی حقوق" کا محافظ سمجھتے ہیں لیکن
بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے
ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور حکومتوں
کا تختہ الٹنا محض ایک عمل ہی ہے۔ 2008 میں الجزیرہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں، بولٹن
نے کہا کہ ایسے اقدامات کی منصوبہ بندی بعض اوقات "امریکی مفادات کو آگے بڑھانے کا
ایک ضروری ذریعہ ہوتی ہے۔"امریکی
سیاست دان اس خاطر بہت سے عام طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں براہ راست جنگیں شروع
کرنا ،رنگین انقلابات کو بھڑکانا اور پراکسی وار وغیرہ شامل ہیں۔
اس مرتبہ بولٹن نے ،
چند امریکی سیاست دانوں اور ان کے پس پردہ مفاد پرست گروہوں کی دلی ترجمانی کی ہے۔
ایسے امریکی سیاستدان جن کے ہاتھ دوسرے ممالک کے لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں،
اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں اور انہیں قانون کے
مطابق سزا دی جائے۔