جو بائیڈن مشرق وسطیٰ میں بری طرح 'گر گئے'،سی ایم جی کا تبصرہ

2022/07/18 15:28:48
شیئر:

مقامی وقت کے مطابق سترہ تاریخ کو  امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے کے بعد واشنگٹن پہنچے ۔ اس دورے سے قبل بائیڈن نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے درمیان تعلقات میں ایک ’’نیا باب‘‘ کھولیں گے لیکن اب وہ خالی ہاتھ واپس آئے ہیں۔ "دی نیویارکر" نے تبصرہ کیا کہ چار روزہ دورے نے مشرق وسطیٰ کی پالیسی میں بائیڈن کی مکمل ناکامی کو ظاہر کیا۔
    توانائی کا مسئلہ بائیڈن کے سفر کا ایک اہم موضوع تھا ۔ سعودی رہنماؤں کے ساتھ بائیڈن کی بات چیت کے بعد  جاری  مشترکہ بیان  میں ، سعودیوں نے تیل کی پیداوار میں نمایاں اضافے کا واضح عزم نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کے نظام کو مستحکم کرنے کا نام نہاد ہدف بھی ناکام ہو گیا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی چین اور روس کو مشرق وسطیٰ سے نکالنے کی کوشش کا تعلق ہے تو یہ اس سے بھی زیادہ یوٹوپیائی ہے۔ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے واضح کیا کہ چین سعودی عرب کا اہم تجارتی پارٹنر، توانائی کی منڈی اور سرمایہ کار ہے۔
    جب امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے افغانستان سے عجلت میں انخلاء کیا اور جب فلسطین اسرائیل کے مسئلہ پر امریکہ نے واضح جانبداری کا مظاہرہ کیا تو مشرق وسطیٰ کے ممالک کا اس نام نہاد "بڑے بھائی" پر سے اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مغربی ممالک اس وقت بلند افراطِ زر سے دوچار ہیں، اور مشرقِ وسطیٰ، جو تیل اور گیس کے وسائل سے مالا مال ہے، مضبوط خود مختاری اور سفارت کاری پر اعتماد رکھتا ہے، اور امریکہ کی بات سننے سے گریزاں ہے۔ یقیناً اس کی گہری وجہ یہ ہے کہ عالمی ڈھانچے میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں اور امریکہ کی طاقت کمزور پڑ رہی ہے۔ بائیڈن کی مشرق وسطیٰ میں ’’گڑگڑاہٹ‘‘ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ  مشرق وسطیٰ میں بات کرنے  کا بڑا حقدار نہیں رہا ہے، اور امریکی سیاست دانوں کا مشرق وسطیٰ کو ایک جیو پولیٹیکل گیم میں پیادے اور سیاسی مفادات کے آلے کے طور پر استعمال کرنے کا حساب کتاب مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے . امریکی سفارت کاری میں یہ پہلا زوال نہیں ہے اور نہ ہی آخری ہوگا۔