بیس جولائی کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ بیلاروس میں منعقدہ مذاکرات کے پہلے دورسے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرین کا مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سمیت یورپی ممالک کے رہنماوں نے یوکرین کو قائل کیا ہے کہ فوری مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ عسکری مفادات کے حصول کے بعد ہی روس کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔روسی وزیرخارجہ کے مطابق موجودہ صورتحال کے تناظر میں یوکرین کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
روس کے خصوصی عسکری آپریشن اور حغرافیائی اہداف کے بارے میں روسی وزیرخارجہ نے کہا کہ یہ مشن اب تک اس عتبار سے موثر رہا ہے کہ یوکرین کو نازی ازم اور عسکریت پسندی سے پاک علاقہ بنایا جائے تاکہ روس کی سلامتی کو یوکرین سے کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ انہوں نے مزیدکہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان مارچ کے آخر میں استنبول میں منعقدہ مذاکرات میں "ابتدائی امن معاہدہ " طے پایا تھا۔ تاہم یوکرین اس معاہدے پر عمل درآمد میں آمادہ نہیں ہے۔لہذا روس کے خصوصی عسکری آپریشن کا جغرافیائی ہدف تبدیل ہوچکا ہے۔
روسی وزیرخارجہ کے بیان کے ردعمل میں یوکرین کے وزیرخارجہ دیمیترو کولیبا نے بیس تاریخ کو سوشل میڈیا پر کہا کہ یہ روس کا مزید یوکرینی سرزمین پر قابض ہونے کے ارادے کا اعتراف ہے۔انہوں نے مغربی ممالک پر زور دیا کہ وہ روس پر مزید پابندیاں عائد کریں اور یوکرین کے لیے ہتھیاروں کی ترسیل میں تیزی لائیں۔
اسی روز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے بھی خطاب میں کہا کہ روس کو یوکرین کے خلاف عسکری آپریشن کی بھاری قیمت چکانا ہو گی۔انہوں نے یورپی یونین پر زور دیا کہ روس پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں اور نیٹو ممالک یوکرین کو مزیدجدید فضائی دفاعی نظام فراہم کریں۔