دنیا کے کئی ممالک کے عوام کا مغربی طرز کے جمہوری نظام پر اعتماد کمزور ہوتا چلا جار ہا ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح بہت بلند ہے۔ اسی طرح غریب ممالک کے عوام کی سوچ بھی اس جمہوری نظام سے متعلق ایسی ہے ۔حال میں بین الاقوامی سروے ایجنسی “عرب بیرومیٹر” کی طرف سے جاری کردہ دو سروے رپورٹوں کے نتائج نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ کون سا نظام حکومت عوام کے لیے بہتر ہے۔ کیا ایک ہی طرح کا طرز حکمرانی تمام دنیا کے لوگوں کے مسائل حل کر سکتا ہے؟
“عرب بیرومیٹر” کی طرف سے کروائے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر عرب لوگ مغربی طرز کے جمہوری نظام کی تاثیر پر اعتماد کھو رہے ہیں اور چینی ماڈل تیزی سے پرکشش ہورہا ہے۔
سروے میں مراکش، تیونس، عراق، سوڈان، لیبیا، اردن، لبنان، موریطانیہ اور فلسطین سمیت 9 ممالک کا احاطہ کیا گیا جس میں 23,000 جواب دہندگان شامل تھے۔ مذکورہ سروے کے مطابق عرب بیرومیٹر نےجولائی کے شروع میں اپنی آفیشل ویب سائٹ پر “مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت” اور “مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں چین-امریکہ کے مقابلے پر عوامی نظریات” کے عنوان سے دو سروے رپورٹس جاری کیں۔
رپورٹ “مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت” میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں، خاص طور پر پچھلے پانچ سالوں میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے عرب ممالک میں لوگوں نے مغربی طرز کی جمہوریت کے فوائد پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ، اور زیادہ سے زیادہ شہریوں کا خیال ہے کہ مغربی طرز کے جمہوری نظام “معیشت کو فروغ دینے، سماجی نظم و ضبط اور استحکام کو برقرار رکھنے، اور حکومت کو موئثر اقدامات اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے سازگار نہیں ہیں۔”
“مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں چین-امریکہ کے مقابلے پر عوامی نظریات” رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے “دی بیلٹ اینڈ روڈ” اقدام کے ذریعے خطے کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور امریکہ نےاس علاقے میں اپنے اخراجات میں کمی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اپنا اسٹریٹجک مرکز ایشیا پیسیفک میں منتقل کر دیا ہے۔ نتیجے کے طور پر، مراکش کو چھوڑ کر، سروے کیے گئے نو ممالک میں چین امریکہ سے زیادہ مقبول ہے۔ ان آٹھ ممالک میں، کم از کم ایک تہائی جواب دہندگان کا خیال ہے کہ امریکہ ایک سنگین اقتصادی خطرہ ہے، کوئی بھی ملک چین کو امریکہ سے زیادہ اقتصادی خطرے کے طور پر نہیں دیکھتا؛تقریباً تمام ممالک کا خیال ہے کہ امریکی امداد ان کے اپنے ممالک پر اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے ہے، اور مقامی لوگ امریکہ کی نسبت چینی امداد پر بہت کم شکوک و شبہات رکھتے ہیں۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی طرز کے جمہوری اداروں کی غیر مؤثریت، مقامی معیشت کے لیے امریکی خطرہ اور مقامی اقتصادی ترقی کے تاریک امکانات جیسے عوامل عرب خطے میں لوگوں کو چینی ماڈل جیسے دیگر سیاسی نظام کی تلاش پر مجبور کر رہے ہیں۔
گورننس کا چینی ماڈل ، جمہوری عمل میں حقیقی عوامی شمولیت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ اُس مغربی “بیلٹ باکس جمہوریت” سے یکسر مختلف ہے، جو صرف انتخابات کے دوران عوامی شمولیت دیکھتی ہے، لیکن عام طور پر باقی پارلیمانی مدت میں عوامی امنگوں بالخصوص پالیسی سازی کے معاملات پر عوام سے دور رہتی ہے ۔لہذا اسے سیاست دانوں کے درمیان طاقت کا کھیل قرار دیا جا سکتا ہے جس میں ضروری نہیں کہ عوام کی خواہشات کی نمائندگی کی جائے۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا بلاشبہ اپنی بنیادی سوشلسٹ اقدار کو برقرار رکھنے کے جذبے کے تحت چینی عوام کا انتخاب ہے۔چینی عوام کا پارٹی کی گورننس پر اعتماد کا اظہار عالمی سروے رپورٹس کی روشنی سے بھی ہوتا ہے۔
سروے رپورٹ کے مصنف اور امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل رابنز نے کہا کہ گزشتہ 40 سالوں میں اس ماڈل نے چین میں لوگوں کی بڑی تعداد کو غربت سے نکالا ہے۔ “اس قسم کی تیز رفتار اقتصادی ترقی بہت سے لوگوں کی خواہش ہے۔”
رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ چین ایک غیر نوآبادیاتی ملک ہے اور اس نے مشرقی وسطی اور شمالی افریقہ کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کی ہے، مستقبل قریب میں چین امریکہ سے زیادہ مقبول ہو سکتا ہے۔