دور حاضر میں چین کا شمار ایسے سرفہرست ممالک میں کیا جاتا ہے جو تکنیکی میدان میں بے شمار کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں اور نت نئی اختراعات کی بدولت دنیا کو بھی مستفید کر رہے ہیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں چین کی تیز رفتار پیش قدمی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ملک کی اعلیٰ قیادت تکنیکی شعبے میں خود انحصاری کے لیے کوشاں ہے اوربھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھا جائے تاکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک پر انحصار کم سے کم ہو سکے۔ چین کا یہ موقف ہے کہ اس وقت دنیا میں اہم نوعیت کی تمام ٹیکنالوجیز کو خریدا نہیں جا سکتا ہے لہذا جدت اورتخلیق میں خودانحصاری ہی دیرپا کامیابی کی ضمانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے چین نے اپنی ڈیجیٹل معیشت کو ترقی دینے کے لیے کمپیوٹنگ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو تیز کر دیا ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ 2021 تک،چین میں استعمال میں آنے والے "سُپر لارج" اور "لارج" ڈیٹا سینٹرز کی تعداد 450 سے تجاوز کر چکی ہے، جب کہ انٹیلی جنٹ کمپیوٹنگ سینٹرز کی تعداد 20 سے تجاوز کر گئی ہے۔ چین رواں سال بھی کمپیوٹنگ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور بگ ڈیٹا سینٹرز کے ایک مربوط نظام کو مزید فروغ دے گا، جس کا مقصد ایک ایسی موئثر اور گرین کمپیوٹنگ انڈسٹری کو فروغ دینا ہے جو ملک کی ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کو مزید فروغ دے سکتی ہے۔اس مقصد کی خاطر چین نے فروری میں ایک میگا پروجیکٹ شروع کیا ہے جس میں ملک میں آٹھ "قومی کمپیوٹنگ ہب" کے ساتھ ساتھ 10 قومی ڈیٹا سینٹر کلسٹرز کا قیام بھی شامل ہے تاکہ مجموعی کمپیوٹنگ پاور کو بہتر بنایا جا سکے، جو چین کی ڈیجیٹل معیشت کی ترقی کے لیے ایک اہم بنیاد ہے۔ تعجب انگیز پہلو یہ بھی ہے کہ چین کی ڈیجیٹل معیشت 2012 میں 11 ٹریلین یوآن (1.62 ٹریلین امریکی ڈالر) سے بڑھ کر 2021 میں 45 ٹریلین یوآن تک پہنچ چکی ہے جس سے ملک میں ڈیجیٹل شعبے کی ترقی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک چین کی اعلیٰ قیادت کے ٹیکنالوجی دوست رویوں کی بات ہے تو چینی صدر شی جن پھنگ نے ہمیشہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مضبوط خود انحصاری کے لیے جدت پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی کے نفاز پر زور دیا ہے۔انہوں نے متعدد مواقع پر کہا کہ ملکی ترقی کو مزید محفوظ بنانے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں خود مختاری اور خود انحصاری کی جستجو کی جائے۔ شی جن پھنگ نے مزید نت نئی جدید ٹیکنالوجیز اور شعبوں کو فروغ دینے اور بین الاقوامی مسابقت میں نئے اوصاف پیدا کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہوئے واضح موقف اپنایا ہے کہ ملک کی مستحکم ترقی کے عمل میں تمام اہم شعبوں میں بنیادی ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کی اشد ضرورت ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو چین نے اعلیٰ قیادت کے وژن کی روشنی میں ملک میں "سائنسی رویوں" کو پروان چڑھاتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں وہ کارنامہ ہائے سرانجام دیے کہ دنیا دنگ ہے۔ تازہ ترین "گلوبل انوویشن انڈیکس" کا جائزہ لیا جائے تو چین عالمی درجہ بندی میں بارہویں نمبر پر ہے جبکہ یہ امر قابل زکر ہے کہ چین صف اول میں شامل پندرہ ممالک میں متوسط آمدنی کا حامل واحد ملک ہے ، باقی فہرست میں دنیا کے بلند آمدنی والے ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔آج دنیا میں ٹیکنالوجی کی جس بھی جہت کا زکر کیا جائے ، چین آپ کو ممتاز مقام پر نظر آئے گا۔چین کا نظریہ بڑا واضح ہے کہ عوام کے بہترین مفاد میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جدید کٹنگ ایج ٹیکنالوجیز کی ترقی، اقتصادی ترقی کے فروغ ، ملک کی اہم ضروریات کو پورا کرنے، اور عوام کی فلاح و بہبود میں احسن طور پر استعمال کیا جائے۔ سائنسی اور تکنیکی اختراعات کا کردار فوری نوعیت کے اور اہم ترین مسائل سے نمٹنے میں مزید بڑھایا جائے۔ چین نے خود کو دنیا میں انوویشن اور جدت کے ایک مرکز میں ڈھالنے کے لیے دوررس اہمیت کا حامل منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے جس کے تحت 2035 تک چین ایک گلوبل انوویشن لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آ سکے گا۔اس دوران اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے پیش قدمی کی جائے گی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں سبقت کے لیے آرٹیفشل انٹیلی جنس ،کوانٹم انفارمیشن ، انٹیگریٹڈ سرکٹس ،زندگی اور صحت ، برین سائنسز ، ائیرو اسپیس ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ارضیاتی و سمندری کھوج کے حوالے سے کئی اہم اسٹریٹجک منصوبوں کی تکمیل کی جائے گی۔یہ امر بھی قابل تقلید ہے کہ چین دنیا کے دیگر ممالک میں سائنسی شعبے میں حاصل شدہ اہم کامیابیوں اور پیش رفت سے سیکھنے کا عمل بھی جاری رکھے گا۔اس طرح "چینی دانش" کے تحت عالمگیر مسائل پر قابو پانے کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا جائے گا۔