حال ہی میں، امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر، نینسی پیلوسی نے چین کے بار بار کیے جانے والے اعتراضات کے باوجود، تائیوان کا دورہ کیا۔یہ"ایک چین" کے اصول کی خلاف ورزی اور ایک مکمل سیاسی ڈھونگ ہے، جو امریکہ کے دوہرے سیاسی معیار اور تسلط پسندانہ منطق کی عکاسی کرتا ہے نیز عالمی امن و استحکام کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ ہر جگہ بحران پیدا کرتا ہے اور عالمی امن و استحکام کو نقصان پہنچانے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
پیلوسی کا تائیوان کا دورہ ایک مکمل سیاسی ڈرامہ ہے۔اپنی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے خود غرضی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسرے خطوں کو بحرانوں میں دھکیلنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ امریکہ کی سابق اسسٹنٹ سیکریٹری آف ڈیفنس فو لی مین کا خیال ہے کہ پیلوسی اپنے پورے کیریئر میں چین کو سیاسی تشہیر کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ان کی عمر 82 سال ہے اور یہ بیرون ملک ان کا آخری اہم دورہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تائیوان کا دورہ پیلوسی کا مکمل طور پر غیر ذمہ دارانہ ذاتی سیاسی ڈھونگ تھا۔ اگرچہ پیلوسی کو علم تھا کہ امور تائیوان چین کے بنیادی مفادات ہیں اور چین نے بارہا اس پر سخت اعتراضات اٹھائے ہیں، لیکن پھر بھی ان کا تائیوان کے دورے پر اصرار جاری رہا ۔اس صریح اشتعال انگیزی نے آبنائے تائیوان کو بحران سے دوچار کر دیا ہے اور دنیا کو بھی ایک غیر مستحکم صورتحال کا سامنا ہے.
یکم اگست کو امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہاتھا کہ اگر پیلوسی تائیوان کا دورہ کرتی ہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس معاملے میں چائنیز مین لینڈ زیادہ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کر سکتا ہے اور حالات کو مزید خراب نہیں ہونے دے گا۔اگر چائنیز مین لینڈ کسی قسم کا بحران پیدا کرتا ہے، یا خطے میں کشیدگی کا باعث بنتا ہے، تو اس کی پوری ذمہ داری بیجنگ کو اٹھانی ہوگی۔ یہ ایک بہت ہی مضحکہ خیز منطق ہے: امریکی حکومت میں نینسی پیلوسی کی حیثیت تیسری اہم شخصیت کی ہے اور امریکہ ان کے دورے کو ایک "ذاتی عمل" کے طور پر بیان کرتا ہے، یہ تو خود امریکی حکومت کا ذمہ داری سے بچنے کا ایک بہانہ ہے۔لیکن امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ جس فریق کے بنیادی مفادات کو چیلنج کیا جا رہا ہے، وہ پرسکون رہے اور حالات کی ذمہ داری قبول کرے۔ یہاں تو یہ کہنا بنتا ہے کہ امریکہ میں کچھ سیاست دان بالادستی اور دوہرے سیاسی معیار کا کھیل بخوبی کھیلتے ہیں۔
پیلوسی کا دورہ تائیوان بین الاقوامی برادری کے عمومی اتفاق رائے اور بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ ایک چین کا اصول عالمی برادری کا عمومی اتفاق رائے ہے۔ پیلوسی کے اقدام پر پاکستان سمیت 140 سے زائد ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے بھی چین کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت، چین کے قومی اقتدار اعلی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی اور آبنائے تائیوان کے امن اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی مخالفت نیز چین کے اپنے کلیدی مفادات کے تحفظ کےلیے اختیار کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کا اظہار کیا۔ ۔ 1971 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد نمبر 2758 میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا کہ "عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کا نمائندہ اقوام متحدہ میں چین کا واحد جائز نمائندہ ہے اور عوامی جمہوریہ چین سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک میں سے ایک ہے۔ " پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے بعد، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوئتریس نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ ایک چین پالیسی اور اقوام متحدہ کی قرارداد 2758 کا احترام کرتا رہے گا۔
ترقی اور امن اس وقت مختلف ممالک کے لیے دو اہم ترین کام ہیں ۔ اسی تناظر میں چین نے عالمی ترقیاتی انیشیٹیو اور عالمی سلامتی انیشیٹیو پیش کیے ہیں ، جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین نے ہمیشہ تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ بھلائی کا خیال رکھا ہے اور عالمی امن و خوشحالی کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ے۔ ابھی حال ہی میں، چین نےاگست میں سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے بعد ، عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے "مشترکہ سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیےمذاکرات اور تعاون کو مضبوط بنانے" پر ایک اجلاس منعقد کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔لیکن دوسری طرف، امریکہ حالیہ برسوں میں جمہوریت، آزادی اور انسانی حقوق جیسے شاندار نعرے لگا رہا ہے ،جب کہ حقیقیت میں وہ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے، لوگوں کی زندگی اور ترقی کے حقوق کو مجروح کرتا رہا ہے ، اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے دوسرے ممالک میں تنازعات کو ہوا دیتا آیا ہے. پوری دنیا کے لوگ پرامن اور مستحکم ترقی کا ماحول چاہتے ہیں، لیکن کچھ امریکی سیاست دان اسے تباہ کر رہے ہیں۔امریکی عوام سمیت تمام ممالک کے عوام کو ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ اگر دنیا انتشار اور افراتفری میں پڑ گئی تو صرف چند سیاستدانوں اور اسلحہ ڈیلرز کو ہی فائدہ ہوگا۔