وانگ ای کی جانب سے تائیوان کے حوالے سے چین کے پختہ مؤقف کا اظہار

2022/08/06 16:00:54
شیئر:

پانچ اگست کو چین کے ریاستی کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای نے نوم پینہ میں مشرقی ایشیائی تعاون سے متعلق وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد چینی اور غیر ملکی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنس کی۔ وانگ ای  نے کہا کہ وہ  تائیوان کے امور پر چین کے موقف کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ امریکہ نے اس حوالے سے بہت سی غلط معلومات اور جھوٹی باتیں پھیلائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کی سخت مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے، امریکی اسپیکر نینسی پیلوسی نے امریکی حکومت کے اہتمام کے تحت چین کے تائیوان کے علاقے کا کھلم کھلا دورہ کیا،جو چین کے اقتدار اعلیٰ اور چین کے اندرونی امور کی سخت خلاف ورزی ہے۔ یہ امریکہ کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس دورے سے آبنائے تائیوان کے امن اور استحکام کو خطرے سے دو چار کیا گیا ہے۔ یقیناً چین کو اس حوالے سے سخت ردعمل دینا چاہیے۔ ہمارا موقف جائز، معقول اور قانونی ہے، ہمارے اقدامات پختہ، زبردست اور مناسب ہیں، اور ہماری فوجی مشقیں کھلی، شفاف اور پیشہ ورانہ ہیں، ملکی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہیں۔ ہم چین کے  اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کا پختہ طور پر تحفظ کریں گے، امریکہ کی "چین کو کنٹرول کرنے کے لیے تائیوان کو استعمال کرنے" کی کوششوں کو مضبوطی سے روکیں گے۔ اسی وجہ سے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک نے ایک چین کی پالیسی کا اعادہ کیا ہے اور چین کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بار پھر زوردیا کہ اقوام متحدہ  جنرل اسمبلی کی قرارداد ۲۷۵۸ پر کاربند رہے گا جس کا مرکز ایک چین کی پالیسی ہے یعنی تائیوان چین کا ایک حصہ ہے۔

 وانگ ای نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ نے کہا کہ  چین  آبنائے تائیوان  کی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، یہ مکمل افواہیں ہے۔ تائیوان کبھی ایک الگ ملک نہیں رہا، دنیا میں صرف ایک چین ہے، اور آبنائے تائیوان کے دونوں کناروں کا تعلق ایک ہی ملک سے ہے، زمانہ قدیم سے تائیوان کا یہی حال ہے۔ 1978 میں چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام سے متعلق اعلامیے میں واضح طور پر اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت واحد قانونی حکومت ہے جو پورے چین کی نمائندگی کرتی ہے اور تائیوان چین کا ایک حصہ ہے۔ آبنائے تائیوان کی صورت حال  دہائیوں سے بدستور برقرار ہے۔  اس صورت حال کو بگاڑنے والا چین نہیں بلکہ امریکہ اور تائیوان کی علیحدگی پسند قوتیں ہیں۔ 2000 میں، امریکہ نے نام نہاد "تائیوان ریلیشنز ایکٹ" کو یکطرفہ طور پر بنایا  جو چین-امریکہ تین مشترکہ  اعلامیوں کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔اور آبنائے تائیوان کی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکہ خطے میں اپنی فوجی تعیناتی کو بڑھا رہا ہے،  وانگ ای نے امید ظاہر کی کہ اس پر تمام فریقین انتہائی چوکس رہیں گے۔ امریکہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے مسائل پیدا کرتا ہے اور پھر انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن چین کے سامنے یہ طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن  نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی قانون پر کاربند رہنے اور تمام ممالک کے قومی  اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کی امید رکھتا ہے۔ وانگ ای  نے کہا کہ ہم نے طویل عرصے سے امریکی جانب سے ایسا کوئی بیان نہیں سنا ہے، اب تک امریکہ نے بہت سے ایسے کام کیے ہیں جن سے دوسرے ممالک کے  اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر وہ واقعی اپنی غلطیوں کو درست کر سکتا ہے تو ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں گے، لیکن  سب سے پہلے،  امریکہ کو تائیوان کے امور پر چین کے  اقتدار اعلیٰ اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنا، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنا، اور "تائیوان کی علیجدگی پسند قوتوں  کی حمایت نہ کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کرنا چاہیے۔