جاپان، جو تاریخی جرم کا مرتکب ہے، کو عسکریت پسندی کو ڈھیل دینا بند کرنا چاہیے، سی ایم جی کا تبصرہ

2022/08/16 10:40:01
شیئر:

اس سال 15 اگست کودوسری جنگ عظیم میں  جاپان کی شکست اور غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی 77 ویں برسی ہے۔ دنیا  کے لئے یہ چیز لمحہ فکریہ ہے کہ جاپان میں جنگ کے بعد کے امن پسند آئین کو چھوڑ کر  عسکریت پسندی کی طرف جانے  کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر تائیوان کے معاملے میں کچھ جاپانی سیاست دانوں کی حالیہ خطرناک کارکردگی نے لوگوں کے خدشات کو مزید تقویت دی ہے۔

کچھ عرصہ قبل امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے ون چائنا پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تائیوان کا دورہ کیا تھا جس کی 170 سے زائد ممالک اور کئی بین الاقوامی تنظیموں نے مذمت کی تھی۔ تاہم، جب جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیڈا نے پیلوسی سے ملاقات کی، تو انہوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ آبنائے تائیوان کے ارد گرد چین کی جائز فوجی مشقوں نے "جاپان کی قومی سلامتی کو شدید متاثر کیا" اور دھمکی دی کہ "جاپان اور امریکہ مشترکہ طور پر آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو برقرار رکھیں گے۔ " اس کے علاوہ، جاپان نےجی7  ممالک اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر، امریکہ کی طرف سے چین کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کی حمایت ظاہر  کرنے کے لیے ایک نام نہاد مشترکہ بیان جاری کیا۔
تائیوان کے معاملے پر، جاپان کا چینی عوام پر ایک تاریخی قرض ہے، اور وہ غیر ذمہ دارانہ تبصرے کرنے کا بالکل بھی اہل نہیں ہے۔ تاہم،دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد  امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے جاپان کی عسکریت پسندی کا مکمل احتساب نہیں کیا   ۔ نتیجتاً، جاپان میں انتہائی دائیں بازو کی قوتیں نہ صرف جارحیت کی تاریخ پر غور کرنے میں ناکام رہی ہیں، بلکہ دوسری جنگ عظیم میں اپنی شکست بھی تسلیم نہیں کرتیں ، اور وہ اب بھی تائیوان  کے امور میں  مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔

جاپانی سیاست دانوں کو اپنے ایشیائی پڑوسیوں کو پہنچنے والے مصائب اور  نقصانات  کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔  اور انہیں وقتاً فوقتاً اس پر غور کرنے، تاریخ سے سبق سیکھنے اور عسکریت پسندی کو ڈھیل دینے کے خطرناک عمل کو روکنے کی ضرورت ہے۔ اگر جاپان میں صاحبِ اقتدار  "قومی قسمت" پر داو لگانا چاہتے ہیں اور بیرونی توسیع کے پرانے راستے کو اپنانا چاہتے ہیں، تو وہ آخر کار جاپان کو دوبارہ کھائی میں دھکیل دیں گے۔