حالیہ موسم گرما میں چین اور پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے موسمیاتی تبدیلی سے جنم لینے والے مسائل مزید عیاں ہوئے ہیں۔درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے سے حالیہ عرصے میں عالمی سطح پر انتہائی شدید موسمی واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں جنگلات کی آگ، گرمی کی لہریں، طوفانی بارشیں، خشک سالی، سیلاب اور طوفان وغیرہ شامل ہیں۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی بے ضابطگیوں کا سبب درجہ حرارت میں تیز رفتاری سے اضافہ ہے۔ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو شدید موسمیاتی واقعات کی سنگینی کے رجحان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
یہ بات تشویش ناک ہے کہ دنیا بھر میں اوسط درجہ حرارت 1970 کی دہائی سے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ عالمی موسمیاتی اداروں کے مطابق، 1950 سے 2018 تک، دنیا کے بیشتر حصوں میں گرم دنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جس میں ہر دہائی میں دو سے آٹھ دن کا اضافہ سامنے آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں گرم دنوں کی اوسط تعداد میں 1961 اور 1990 کے درمیان تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثنا، دنیا کے بیشتر خطوں میں شدید بارشوں میں اضافہ ہوا ہے، شدید بارش میں فی دہائی ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یہاں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جہاں گلوبل وارمنگ انتہائی شدید موسمی واقعات کو ہوا دیتی ہے،وہاں شہر بھی موسمیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر، 50 فیصد سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے، شہر دنیا کی 78 فیصد توانائی استعمال کرتے ہیں اور 75 فیصد گرین ہاؤس گیسز خارج کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں دیہی علاقوں کی نسبت شہر موسمیاتی تبدیلی کا نسبتاً زیادہ شکار ہیں اور شہری علاقوں میں زیادہ درجہ حرارت، موسلا دھار بارش اور شدید موسمی واقعات بھی شدت سے محسوس کیے جاتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ دیہی اور شہری علاقوں کو درپیش مسائل کا تجزیہ کیا جائے، شدید موسمی واقعات سے نمٹنے کے لیے قابل عمل طریقے تجویز کیے جائیں، اور اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچائے بغیر توانائی کی طلب اور اخراج کو کم کیا جائے۔
اس ضمن میں چین جیسے بڑے ملک کی جانب سے نمایاں اقدامات اپنائے جا رہے ہیں تاکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔ چین بھر میں جہاں وسیع پیمانے پر کم کاربن پر مبنی گرین ترقی اور گرین صنعتوں کی کوششیں جاری ہیں وہاں معاشرتی اعتبار سے شجرکاری کو بھی سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ بنا دیا گیا ہے۔چائنا فارسٹری گروپ کے مطابق رواں سال ملک میں 40 ہزار ہیکٹر رقبے پر درخت لگانے کی کوشش کی جائے گی۔اس دوران بڑے پیمانے پر جنگلات کو فروغ دیا جائے گا اور مقامی حالات کے مطابق شجرکاری کی سرگرمیاں انجام دی جائیں گی۔یہ بات قابل زکر ہے کہ چین نے 2021 میں 3.6 ملین ہیکٹر رقبے پر جنگلات لگائے اور تقریباً چار لاکھ ہیکٹر اراضی کو جنگلات میں تبدیل کیا ہے ۔اس دوران چین کی جانب سے جنگلات کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہدافی اقدامات کیے گئے اور حیرت انگیز طور پر گزشتہ سال تقریباً ساڑھے نو لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلے تباہ شدہ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں چین نے مقامی محکمہ موسمیات کو اپنی نگرانی کی صلاحیت کو مضبوط کرنے اور رہائشیوں کو گرمی کی لہروں سے پہلے ہی خبردار کرنے پر نمایاں کام کیا ہے، حکام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کاروباری اداروں اور لوگوں کو بلند درجہ حرارت سے نمٹنے میں مدد کے لیے ہنگامی منصوبے متعارف کروائیں جبکہ عوامی مقامات اور سہولیات جیسے کہ پارکس وغیرہ کو انتہائی گرم موسم میں مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ چین کی کوشش ہے کہ اسمارٹ سٹی پلاننگ اور ڈیزائن کو آگے بڑھایا جائے جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، شہروں کی اسمارٹ پلاننگ کے تحت گرین مقامات کی تعداد اور معیار میں اضافہ کیا جا رہا ہے، عوامی نقل و حمل کو مسلسل گرین اور بہتر بنایا جا رہا ہے اور گرین عمارتوں کے ڈیزائن سے گرین فن تعمیر کو فروغ دیا جا رہا ہے جو ارد گرد کے ماحول پر منفی اثرات کو کم سے کم کر سکتا ہے۔ چین کے نزدیک جدید ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل انٹرپرائزز اسمارٹ شہروں کی ترقی کو فروغ دے سکتے ہیں، اور انٹیلی جنٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔وسیع تناظر میں چین کے یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ فطرت اور انسانیت کے مابین ہم آہنگ ترقی کے لیے کوشاں ہے اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی بنیاد پر حقیقی ترقی کا خواہاں ہے۔