
اقوام متحدہ میں چین کے مستقل نمائندے جانگ جون نے 29 اگست کو افغانستان
کے بارے میں سلامتی کونسل کے کھلے اجلاس میں کہا کہ افغانستان میں گزشتہ 20 سالوں
میں غیر ملکی افواج کی ناکامی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ فوجی مداخلت اور
طاقت کی سیاست درست راستہ نہیں ہے۔ غیر ملکی ماڈل اور نام نہاد "جمہوری اصلاحات"
غیر مقبول ہیں۔افغانستان میں سانحے کو دہرایا نہیں جا سکتا۔
جانگ جون نے کہا کہ
چین نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر ملکی فوجیوں کا انخلا ذمہ داری کا خاتمہ
نہیں بلکہ جائزہ، عکاسی اور اصلاح کا آغاز ہے۔ متعلقہ ممالک کو اپنی غلطیوں پر
سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تھا اور اپنی غلطیوں کو بروقت درست کرنا چاہیے تھا،
بجائے اس کے کہ وہ کندھے اچکا کر بھاگ جائیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ متعلقہ
ممالک نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بجائے ترقیاتی امداد بند کر دی، افغان اثاثے
منجمد کر دیے اور سیاسی ناکہ بندی کے ذریعے انہیں تنہا کر دیا۔ یہ نہ صرف ذمہ داری
سے بچنا اور افغان عوام کو ترک کرنا ہے بلکہ غلطیوں کو دائمی بنانا اور افغان عوام
کے مصائب میں اضافہ کرنا ہے۔
جانگ جون نے کہا کہ چین افغانستان کا سب سے بڑا
پڑوسی ہے اور اس نے ہمیشہ افغانستان کی پرامن اور مستحکم ترقی کی حمایت کی ہے اور
اس مقصد کے لیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔ افغانستان کے لیے چین کی امداد حقیقی ہے،
چین اپنے وعدے کی پاسداری کرتا ہے، جو برابری اور باہمی احترام کی عکاسی ہے۔ چین
نے بین الاقوامی برادری بالخصوص جنگ کے ذمہ دار ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ افغان
عوام کی مدد جاری رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں، انہیں تنہا نہ چھوڑیں یا سزا نہ
دیں۔ افغانستان کو عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے اور دنیا کو بھی ایک پرامن اور
مستحکم افغانستان کی ضرورت ہے۔