پانچ ستمبر کو، چین کے نیشنل کمپیوٹر وائرس ایمرجنسی رسپانس سینٹر اور 360 کمپنی نے چین کی نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی پر بیرون ملک سے ہونے والے سائبر حملوں کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ جاری کی۔تحقیقات سے پتا چلا کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تحت آفس آف ٹیلرڈ ایکسیس آپریشن(TAO) نے حالیہ سالوں میں چین کے ملکی نیٹ ورک کو نشانہ بنایا ، بدنیتی پر مبنی بے شمار سائبر حملے کیے، متعلقہ نیٹ ورک کے آلات کو کنٹرول کیا، جبکہ بیش قیمت ڈیٹا چوری کیے جانے کا بھی شبہ ہے۔
رواں سال اپریل میں، چین کے شہر شی آن کے پبلک سیکیورٹی بیورو کو ایک سائبر حملے کی اطلاع ملی کہ چین کی نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے انفارمیشن سسٹم کو سائبر حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جامع تحقیقات سے یہ انکشاف ہوا کہ مذکورہ حملے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے تحت آفس آف ٹیلرڈ ایکسیس آپریشن نے کیے ہیں۔تحقیقات میں یہ بھی پتہ چلا ہے آفس آف ٹیلرڈ ایکسیس آپریشن نے چین میں نیٹ ورک اہداف پر بے شمار خطرناک سائبر حملے کیے ہیں، جس میں ہزاروں نیٹ ورک ڈیوائسز کو کنٹرول کیا گیا ہے اور اس نے 140GB سے زیادہ بیش قیمت ڈیٹا بھی چوری کیا ہے ۔
ان تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی دنیا میں سب سے بڑی"انٹرنیٹ ہیکر"ہے۔ ایک سابق امریکی دفاعی کنٹریکٹر، سنوڈن نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت وسیع پیمانے پر ملکی اور غیر ملکی ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کر رہی ہے۔ امریکہ کا "بلیک ہینڈ "اس کے اتحادیوں سمیت پوری دنیا تک پھیلا ہوا ہے۔ گزشتہ سال جون میں، ڈنمارک براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کئی یورپی ممالک کے سیاسی رہنماؤں کی نگرانی کر رہی تھی۔ رپورٹس کے مطابق، امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی طرف سے 500 ملین سے زائد جرمن فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا جب کہ فرانس میں تقریباً 70 ملین فون ڈیٹا چوری کیا گیا۔مزید یہ کہ امریکہ کچھ ہائی ٹیک کمپنیوں سے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بعض ایپلی کیشنز میں "بیک ڈورز" رکھیں۔
دنیا کے تمام امن پسند ممالک کو امریکی سائبر تسلط کے خلاف پرعزم طریقے سے مزاحمت کرنی چاہیے تاکہ ایک صاف شفاف" انٹرنیٹ" واپس آ سکے گی۔