مقامی
وقت کے مطابق 22 تاریخ کو، امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی کے دوران "دی پارٹنرز ان دی بلیو پیسیفک " (PBP) وزرائے خارجہ کے
اجلاس کی صدارت کی۔ ملاقات میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ بحرالکاہل کے خطے کی
ترقی کے لیے پر عزم ہےاور خطے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور بنیادی ڈھانچے کی
تعمیر کو مضبوط بنانے میں تعاون کرے گا۔
نام نہاد 'پی بی پی' کو اس سال جون میں
قائم کیا گیا تھا۔ ابتدائی رکن ممالک میں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان اور
نیوزی لینڈ شامل ہیں اور بھارت کو مبصر ریاست کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ
بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی، بحری سلامتی اور صحت جیسے
شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد اتنا سادہ
نہیں ہے۔ کئی امریکی میڈیا نے نشاندہی کی کہ پی بی پی کا اصل مقصد جنوبی بحرالکاہل
کے علاقے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے ۔
امریکہ کے
جغرافیائی سیاسی نقشے پر جنوبی بحرالکاہل کو ایک عرصے سے نظر انداز کیا گیا ہے، اب
یہ توجہ کا مرکز کیوں بنا ہوا ہے؟ امریکی کانگریس کے ممبر سٹیو چابو کا خیال ہے کہ
سال کے آغاز میں چین اور جزائر سولومن کے درمیان طے پانے والے دوطرفہ سیکورٹی
معاہدے کے بعد امریکہ کی جانب سے اس حوالے سے شدید عجلت کا احساس دیکھنے میں
آیا ہے، اور اب امریکہ اسے ایک "ناقابل تردید اسٹریٹجک عنصر" سمجھ رہا ہے۔
بحرالکاہل کے خطے میں امریکی سرگرمیوں کا ایک "ناقابل تردید اسٹریٹجک مقصد " موجود
ہے۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک میں امریکی سرمایہ
کاری جیوسٹریٹیجک مسابقت پر مبنی ہے، جس کا اصل مقصد محاذ آرائی ہے۔بحرالکاہل کے
جزیروں کے ممالک کے لیے، موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ ۱۹ سمیت چیلنجوں سے نمٹنا سب
سے اہم کام ہے۔ اگر امریکہ واقعی بحرالکاہل کے جزیروں کے ممالک کی ترقی میں مدد
کرنا چاہتا ہے جیسا کہ وہ کہتا ہے، تو اسے وہی کرنا چاہیے جو وہ کہتا ہے، جغرافیائی
سیاسی حساب کتاب کرنے اور مختلف پیشگی سیاسی شرائط عائد کرنے کے بجائے،جزیرے کے
ممالک کے ساتھ مساوی اور باہمی طور پر فائدہ مند تعاون کرنا چاہیے، اور جزیرے کے
ممالک کے آزادانہ بیرونی تبادلے کے حق کا احترام کرنا چاہیے،