امریکہ کی
سٹینفورڈ یونیورسٹی سمیت تحقیقی اداروں کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کی گئی ۔ ایک
سروے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں امریکہ نے سینکڑوں جعلی
اکاؤنٹس بنائے ہیں، متعدد سوشل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات پھیلائی ہیں، مغرب نواز
بیانیے کو فروغ دیا ہے، اور چین، روس، ایران سمیت کئی ممالک پر بہتان لگائے
ہیں۔
امریکہ ہمیشہ سے جھوٹی معلومات گھڑنے اور رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں
"بہترین" رہا ہے۔ امریکی سینیٹر رینڈ پال نے ایک مرتبہ کہا کہ "کیا آپ جانتے ہیں کہ
دنیا میں غلط معلومات پھیلانے والا سب سے بڑا کون ہے؟ "امریکی حکومت"۔" اسٹینفورڈ
یونیورسٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے بے نقاب کردہ "خفیہ اثر و رسوخ کا آپریشن"
امریکہ کی آن لائن ڈس انفارمیشن جنگ کے آئس برگ کا صرف ایک سرا ہے، جس کے پیچھے
متعدد سازشیں ہیں۔
"غلط معلومات" امریکہ کے لیے دوسرے ممالک کی حکومتوں کو تباہ
کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر 2011 کے آس پاس پھوٹنے والی نام نہاد
"عرب اسپرنگ" کو ہی لے لیں، اُس وقت امریکہ نے غلط معلومات پھیلانے اور "رنگین
انقلاب" کو بھڑکانے کے لیے "سائبر عرب لیگ" کا آغاز کیا۔ وسطی ایشیا میں امریکہ
نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ کو ہوا دینے کی کوشش
کی۔
اس کے علاوہ، امریکہ خیالی دشمن کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے بھی غلط
معلومات کا استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، 2020 میں کووڈ-19 کی وبا کی شروعات
کے دوران، آسٹریلوی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جاری کی گئی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے
مطابق، امریکی ریپبلکن پارٹی اور دائیں بازو کی قوتوں سے وابستہ ہزاروں امریکی سوشل
میڈیا اکاؤنٹس نے ایسے بیانات دیے جن سے چین کو بد نام کیا گیا۔ اور ان میں سے بہت
سے اکاؤنٹس "روبوٹ" اکاؤنٹس تھے۔
امریکہ جعل سازی کے راستے پر مزید آگے بڑھ رہا
ہے، اور اس کی اپنی ساکھ طویل عرصے سے دیوالیہ ہو چکی ہے۔