گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 51 ویں اجلاس میں چینی مندوب نے
امریکہ اور دیگر ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے نسلی اقلیتوں کے
خلاف امتیازی قانون کے نفاذ پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور ان سے مطالبہ کیاکہ وہ
اپنے یہاں موجود نسل پرستی اور نسلی امتیاز کے سنگین مسائل کا سامنا کریں، تاکہ
"فلائیڈ سانحے" جیسےسانحات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
اعداد و شمار کے مطابق،
فلائیڈ سانحے کے ایک سال بعد، پورے امریکہ میں پولیس نے کم از کم 229 افریقی
امریکیوں کو ہلاک کیا ہے۔ اس سال کے آغاز سے، امریکہ میں افریقی نژاد امریکیوں کے
خلاف پولیس تشدد کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ امریکی معاشرے میں موجود شدید نسل
پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔امریکہ میں گزشتہ 50 سالوں میں نسلی لحاظ سے کوئی حقیقی
ترقی نہیں ہوئی ہے۔
متعدد تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ امریکی معاشرے کی
حقیقت یہ ہے کہ یہاں اقلیتوں کو صرف اس وقت "علامتی" اہمیت دی جاتی ہے جب "انتخابات
کی سیاست" میں ان کی ضرورت ہو۔ امریکی سیاست دان ان سماجی اور مختلف ادارہ جاتی
خامیوں کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی یا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں جن سے نسل پرستی
پیدا ہوتی ہے۔
رواں سال اگست میں،جب نسلی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سےاقوام
متحدہ کی کمیٹی نےامریکہ میں نسلی امتیاز کی تمام اقسام کے خاتمے سے متعلق بین
الاقوامی کنونشن کے نفاذ کا جائزہ لی تو اس نے امریکہ میں جڑیں مضبوط کیے ہوئے نسل
پرستی کے مسئلے پر تنقید کی۔امریکہ کو بین الاقوامی برادری کی تنقید ان سنی نہیں
کرنی چاہیے بلکہ انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے انھیں ایک محرک کے
طور پر استعمال کرنا چاہیے، اپنے امتیازی قوانین، پالیسیز اور اقدامات کا جامع
جائزہ لینا چاہیے ،انھیں تبدیل کرنا چاہیے اور متشدد انداز میں قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے معاملات کی مکمل چھان بین کرنی چاہیئے۔