امریکی اخبار کیپٹل ہل نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا جس میں تسلیم کیا گیا ہے
کہ "چین کے ساتھ محصولات میں اضافہ معاشی،سیاسی اور قانونی پہلوؤں سے ناکام ہو چکا
ہے۔"درحقیقت شروع میں ہی تعین کیا جا چکا تھا کہ یہ تباہ کن نتائج کا حامل ہوگا۔
موڈیز کے جاری کردہ تحقیقی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں
محصولات کے اخراجات کا نوے فیصد سے زائد امریکہ کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔بلومبرگ
نے نشاندہی کی کہ محصولات کے بڑھنے سے امریکی صارفین اور کاروباری اداروں کے لاگت
میں بڑا اضافہ ہوا اور امریکی مینوفیکچرنگ کی بحالی بھی نہیں ہوئی ۔دوسری طرف
سیاسی اعتبار سے امریکہ کا منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا ہے ۔وہ محصولات کو
استعمال کرتے ہوئے امریکی بالادستی کا تحفظ کرنا چاہتا ہے اور چین کی ترقی میں
رکاوٹ ڈالناچاہتا ہے۔تاہم چین کی ترقی ،طے شدہ منصوبے کےمطابق جاری ہے۔
چین کے
خلاف چھیڑی گئی اس تجارتی جنگ سے امریکہ کو کئی سبق سیکھنے ہیں ،اسے یہ جان لینا
چاہیے کہ سوچے سمجھے بغیر ،عمومی اقتصادی فہم اور مارکیٹ کے اصول و ضوابط کی
مخالفت کرنا بے فائدہ ہوگا اور سیاسی جوڑ توڑ میں چین سے متعلق پالیسی کا استعمال
اس کے اپنے اندرونی مسائل کو حل نہیں کر سکتا ہے۔یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ بین
الاقوامی تعلقات میں "دھونس" کا استعمال ایک بند گلی میں لے جاتا ہے۔ مزید اہم بات
یہ ہے کہ امریکہ کو چین کی ترقی کو درست انداز میں دیکھنا چاہیئے کیونکہ باہمی
احترام، پر امن بقائے باہمی ،تعاون اور مشترکہ مفادات ہی آپس میں مل جل کر چلنے کا
درست طریقہ ہیں۔