جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو بدنیتی سے مسخ کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی

2022/10/27 16:18:07
شیئر:

 


24 اکتوبر اقوام متحدہ کا دن ہے، اور رواں سال اقوام متحدہ کی 77 ویں سالگرہ  منا ئی گئی ہے . دنیا  میں عالمگیر یت ، نمائندگی اور  اختیارات کی حامل اہم ترین بین الحکومتی عالمی تنظیم کی حیثیت سے اقوام متحدہ نے کثیر الجہتی پر عمل کیا ہے  اور  عالمی امن کے تحفظ اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔

یاد رہے کہ آج سے 51 سال قبل 25 اکتوبر 1971 کو اقوام متحدہ کی  26 ویں  جنرل اسمبلی  میں اقوام متحدہ میں چین کی قانونی نشست کی بحالی سے متعلق قرارداد 2758 منظور کی گئی تھی جس میں طے پایا تھا کہ  عوامی جمہوریہ چین  اقوام متحدہ میں اپنے تمام جائز حقوق استعمال کرے گا اور  چینی حکومت کا نمائندہ اقوام متحدہ میں چین کا واحد جائز نمائندہ تصور کیا جائے گا اور تائیوان  انتظامیہ کا "نمائندہ" اقوام متحدہ میں کسی بھی نشست کا اہل نہیں سمجھا جائے گا۔

اقوام متحدہ کی قرارداد 2758 نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں میں چین کی نمائندگی کے معاملے کو بہت واضح طور پر حل کیا ہے کہ اقوام متحدہ میں چین کی صرف ایک نشست ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں ، تائیوان کی  علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حمایت میں ، امریکہ کی بعض قوتوں کی جانب سے یہ غلط فہمی  پھیلائی جا رہی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی  قرارداد  2758  میں تائیوان کی حیثیت کا مسئلہ حل نہیں  کیا گیا ہے ۔ انہوں نے نام نہاد "اقوام متحدہ کے نظام میں تائیوان کی شرکت" کو  ہوا دینے کی کوشش کی ہے ۔ تاہم گزشتہ 51 سال کے حقائق نے ثابت کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 2758  کو چیلنج کرنے  کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ون چائنا اصول کی بنیاد پر چین  دنیا کے 181 ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم  کر چکا ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھرپور عیاں ہوتی ہے کہ ایک چین کے اصول پر عمل پیرا ہونا عمومی بین الاقوامی اتفاق رائے، عوامی امنگوں اور وقت کا ایک ناقابل تسخیر رجحان ہے۔

آج کی دنیا کو بڑی تبدیلیوں کا سامنا ہے  جس میں شدید عدم استحکام اور غیر یقینی صورتحال درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کو بھی بے مثال چیلنجوں کا سامنا ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو  گوئتریس نے حال ہی میں کہا تھاکہ "اقوام متحدہ کا چارٹر اور اس کے نمائندہ نظریات خطرے میں ہیں"، اور  انہوں نے  اس انتباہ کی وجہ اپنے ذاتی مشاہدات بتائے کہ دنیا اس وقت سنگین "نا ہمواری" میں ہے.انہوں نے کہا کہ کسی ایک طاقت یا بلاک کو دوسروں پر اجارہ داری کا حق حاصل نہیں ہے۔ کسی  بھی بڑے عالمی چیلنج کو محض "خواہشات کے اتحاد" کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک عالمی اتحاد کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا واقعی درست ہے ۔  ایک چین کا اصول بین الاقوامی برادری کا ایک مشترکہ اتفاق رائے بن چکا ہے  اور بین الاقوامی تعلقات  میں ایک مسلمہ بنیادی اصول  بھی ہے ۔ کسی  بھی شخص  ، ملک یا  قوت کی جانب سے "دو چین" یا "ایک چین ، ایک تائیوان"  کی ہر قسم کی سازش  یقیناً ناکامی سے دوچار ہو گی ۔ تائیوان کے پاس اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں میں شرکت کی کوئی بنیاد، وجوہات یا حقوق نہیں ہیں جن میں صرف خودمختار  ریاستیں حصہ لے سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے بعد گزشتہ 77 برسوں میں  بین الاقوامی تعلقات کی ترقی کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے  ۔ چین نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کو برقرار رکھا ہے اور عالمی امن کے معمار، عالمی ترقی میں شراکت دار اور بین الاقوامی نظم و نسق کے محافظ کے طور پر کام کیا ہے.  اس بحث سے قطع نظر کہ آیا بعض ممالک  بین الاقوامی قانون پر مبنی گورننس کے حامی اور محافظ   بنے ہیں یا نہیں ۔  لیکن ہم نے یہ ضرور دیکھا ہے کہ وہ خود کو ایسا سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے اور سخت ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو بدنیتی سے مسخ کرنے کی  کوشش کرتے رہے ہیں  ۔  دوسرے ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کی خلاف ورزی کرنے اور بین الاقوامی امن و استحکام کو کمزور کرنے  والے  ایسے اقدامات یقیناً  ناقص ہیں  اور ناکام ہوں گے ۔