امریکہ میں ، اگر ہم "کیپٹل ہل میں اسٹاک کے بڑے کھلاڑیوں " کے بارے میں بات
کریں تو لوگ سب سے پہلے امریکی کانگریس کی اسپیکر ، نانسی پلوسی کے خاندان کے
بارے میں سوچیں گے۔ لیکن حقیقت میں، واشنگٹن اور امریکہ کی سیاست میں ایسے بڑے
کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل نے حال ہی میں ایک
تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ 2016 سے 2021 کے درمیان تقریبا
12،000 سرکاری عہدیداروں کے مالی اعداد و شمار کے انکشافات سے پتہ چلتا ہے کہ ان
عہدیداروں کے ذریعے رکھے گئے یا تجارت کیئے جانے والے اسٹاک کا پانچواں حصہ ان کے
محکموں کے فیصلوں سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔
امریکہ کے سیاسی میدان کے
"اسٹاک کے ان بڑے کھلاڑیوں " اور ان کی کھلم کھلا غیر قانونی کاروائیوں نے سخت
سماجی عدم اطمینان کو جنم دیا ہے. نیو یارک ٹائمز کا ماننا ہے کہ امریکی سیاست
دانوں نے اپنے مفادات کو عوامی مفادات پر فوقیت دی ہے جس کی وجہ سے عوام کو حکومت
پر شدید عدم اعتماد ہے۔
امریکی سیاسی دانشور فرانسس فوکویاما نے ایک بار
فارن افیئرز میگزین میں اپنے ایک مضمون میں کہا کہ امریکہ میں سیاسی زوال کی جڑیں
بہت گہری ہیں اور امریکہ کے سرکاری ادارے غیر موثر ہوتے جا رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے
کہ امریکی سیاست دانوں کے حصص میں انسائیڈر ٹریڈنگ "ادارہ جاتی بدعنوانی" کی ایک
مثال ہے۔ جب وہ کھلم کھلا بدعنوانی کرتے ہیں اور انھیں سزا بھی نہیں دی جاتی تو
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی نظام کس قدر خرابی اور سیاسی انحطاط کا شکار ہے۔