رواں سال موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کافی پریشان کن واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ شدید گرمی، طوفانی بارشیں، سیلاب، خشک سالی وغیرہ جیسی قدرتی آفات کا سامنا رہا ہے، یورپ میں ریکارڈ
گرمی دیکھی گئی ، پاکستان میں شدید بارشوں سے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب کی زد میں آ گیا ، اور سمندری طوفانوں نے امریکہ کی متعدد ریاستوں کو بھی بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک نے بخوبی اس حقیقت کو سمجھا ہے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے وعدے ، عملی اقدامات کے بجائے محض کھوکھلے بیانات تک ہی محدود رہے تو مستقبل قریب میں ایسے شدید موسمی واقعات معمول بن سکتے ہیں۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی (کوپ 27) کے فریقوں کی 27 ویں کانفرنس 6 سے 18 جون تک مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقد ہو رہی ہے ۔ کانفرنس میں کئی سربراہان مملکت، سربراہان حکومت یا اعلیٰ حکام شرکت کر رہے ہیں ۔ یہ کانفرنس اپنے دورانیے اور شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے ماضی کی کانفرنسز کی نسبت ایک نیا ریکارڈ ہے ۔ اس سے موسمیاتی تبدیلی سے فوری نمٹنے کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے ۔ لیکن محض اہداف اور وعدے ہی کافی نہیں ہیں، بلکہ یہ زیادہ اہم ہے کہ تمام ممالک خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک، موسمیاتی تبدیلی پر پہلے سے کئے گئے وعدوں کو عمل میں لائیں ۔
اس حوالے سے پائے جانے والے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔حالیہ برسوں میں بعض ترقی یافتہ ممالک نے خوبصورت نعرے تو ضرور لگائے ہیں لیکن اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی برادری لازمی اقدامات کے لیے مشترکہ قوت تشکیل دینے سے قاصر ہے۔ یاد رہے کہ 2009 میں کوپن ہیگن میں منعقدہ اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس کے دوران ترقی یافتہ ممالک نے 2020 تک موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا ، لیکن تاحال اس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ کچھ ترقی یافتہ ممالک دوہرے معیارات کے تحت ایک جانب موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ترقی پذیر ممالک سے غیر حقیقی بلند مطالبات کرتے ہیں ، لیکن دوسری جانب وہ اپنی مرضی سے رکازی توانائی کا استعمال کرتے ہیں ۔ جیساکہ ڈنمارک کے کوپن ہیگن کنسنسس ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر جورن لومبورگ نے حال ہی میں کینیڈا کے میڈیا " گلوبل پوسٹ " میں شائع اپنے ایک مضمون میں بتایا "دنیا کے امیر ممالک خود بڑی مقدار میں گیس، کوئلہ اور تیل استعمال کرنے کے بعد ،انتہائی جوش و خروش سے غریب ممالک کو رکازی ایندھن کے خطرات کے بارے میں متنبہ کر تے ہیں."لیکن حقائق نے ثابت کیا ہے کہ اس طرح کا خود غرض طرزعمل دوسروں اور خود اپنے آپ کے لئے نقصان دہ ہے۔ سات نومبر کو امریکی حکومت نے قومی آب و ہوا کی تشخیص کا ایک مسودہ جاری کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں موسمیاتی تبدیلی "دور رس اثرات اور بدترین آفات "کا باعث بن رہی ہے، امریکہ میں گزشتہ 50 سالوں میں آب و ہوا مجموعی گلوبل وارمنگ کی شرح کے مقابلے میں 68 فیصد تیزی سے گرم ہوئی ہے۔اس کے علاوہ امریکہ میں بلین ڈالرز کے نقصانات کا باعث بننے والی قدرتی آفات کی تعداد 1980 میں ہر چار ماہ میں ایک مرتبہ تھی جو اب بڑھ کر ہر تین ہفتے میں ایک تک پہنچ گئی ہے، جن میں شدید بارشیں، شدید گرمی، جنگلات کی آگ اور سیلاب شامل ہیں۔
سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے ، چین نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات اختیار کئے ہیں اور توانائی کے ڈھانچے کو فعال طور پر تبدیل کر دیا ہے۔2021 میں ، چین کی قابل تجدید توانائی کا مجموعی استعمال 750 ملین ٹن معیاری کوئلے کے مساوی تک پہنچ گیا ، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں تقریبا 1.95 بلین ٹن کی کمی واقع ہوئی ، جس نے "کاربن پیک اور کاربن نیوٹرل " کے اہداف کو حاصل کرنے کی بنیاد رکھی ہے ۔ 6 نومبر کو جاری ہونے والی ورلڈ انرجی ڈویلپمنٹ رپورٹ (2022) کے مطابق ، چین کی قابل تجدید توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی نصب شدہ صلاحیت 1 ارب کلو واٹ سے تجاوز کرگئی ہے ، اور سمندری ونڈ پاور کی انسٹال شدہ صلاحیت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کے کلائمیٹ ایکشن ایڈوکیٹس کے شعبہ معاشیات کے ڈائریکٹر سائمن شارپ نے میڈیا کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ "چین موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مثالی کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ چین نے شمسی توانائی اور ہوا کی توانا ئی جیسی صاف توانائی کے استعمال اور برقی گاڑیوں کے شعبے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ، چین نے ماحول دوست "بیلٹ اینڈ روڈ" کی تعمیر کے تحت ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد،تعاون پر مبنی منصوبوں اور استعداد کار کے فروغ سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مدد کی ہے.
اس وقت دنیا کو موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی بہت سی مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں ۔ اس مسئلے کے حل کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو متحد ہو کر پیرس معاہدے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا چاہیئے ۔ لفاظی کے بجائے عملی اقدامات کرنے چاہیے ، صرف اسی صورت میں ہی انسانیت اور ہماری کرہ ارض کا بہتر مستقبل تشکیل دیا جا سکے گا ۔