دنیا کی 8 ارب آبادی کا سنگ میل

2022/11/17 15:59:59
شیئر:

اقوام متحدہ کی عالمی آبادی سے متعلق  2022 کی رپورٹ کے مطابق رواں سال 15 نومبر  کو عالمی آبادی 8 ارب تک پہنچ چکی ہے۔ اس اہم سنگ میل کے حصول میں جہاں ہم سماجی ترقی، معاشی ترقی اور بہتر طبی معیارات کی وجہ سے انسانی متوقع عمر اور آبادی میں اضافے پر خوشی منا رہے ہیں، وہیں اب وقت آ چکا ہے کہ کرہ ارض سے متعلق انسانوں کی ذمہ داریوں پر بھی غور کیا جائے کیونکہ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے کرہ ارض مختلف مسائل سے دوچار ہے  اور انسان اور فطرت کے درمیان تناؤ ایک ناگزیر حقیقت بن چکا ہے۔

اگرچہ عالمی آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح میں کمی آرہی ہے ، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مستقبل کی عالمی آبادی میں اضافے کی علاقائی تقسیم انتہائی ناہموار ہے۔اس ضمن میں سب سے زیادہ آبادی کی شرح والے ممالک محدود وسائل کے حامل ہیں۔ ان ممالک کو عام طور پر زمین اور ماحولیاتی انحطاط ، خوراک کی کمی اور ناکافی بنیادی ڈھانچے ، اور موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ یہی وجہ سے بہت سے لوگوں کو یہ اندیشہ لاحق ہوا ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کرہ ارض  کے وسائل کو بھی انحطاط سے دوچار کر دے گی۔ تاریخی طور پر ، انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ زمین کے وسائل کی صلاحیت میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بوسٹن گلوب کے مطابق 1000 سال پہلے زمین صرف 500 ملین سے بھی کم افراد کے لیے موزوں تھی، 100 سال پہلے یہی زمین تقریباً 2 ارب افراد کے لیے قابل رہائش تھی.

حقائق کی روشنی میں ، آبادی میں اضافے سے پیدا ہونے والے دباؤ کے علاوہ ، انسانی طرز عمل اور کھپت کی عادات بھی کرہ ارض کے وسائل کے انحطاط کا باعث ہوں گے۔ امریکی تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کی ایک محقق جینیفر ہوبا بتاتی ہیں کہ "سیارے پر انسانی سرگرمیاں بدترین اثرات کی موجب ہیں"۔ سویڈن میں اسٹاک ہوم انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1990 اور 2015 کے درمیان، دنیا کی خوشحال یا امیر آبادی ، غریب افراد کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ کاربن اخراج کی وجہ ہے. آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے اسکالرز اسٹیفن ڈوور اور کولن بٹلر نے اپنے مقالے میں کہا ہے کہ متوسط طبقے کے امریکی صارفین اوسطاً 3.3 گنا زیادہ خوراک اور تازہ پانی استعمال کرتے ہیں۔اگر سیارے پر ہر کوئی امریکی متوسط طبقے کی طرح رہنا شروع کر دے  تو یہاں صرف 2 ارب افراد کے رہنے کی ہی گنجائش بچتی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امیر ترین ممالک میں وسائل کی ضرورت سے زیادہ کھپت انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگ بقائے باہمی پر انتہائی منفی اثر ڈالتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، موجودہ عالمی خوراک کی پیداوار 8 ارب لوگوں کو کھانا کھلانے کے لئے کافی ہے، لیکن 800 ملین افراد اب بھی "مستقل غذائیت کی کمی" کا شکار ہیں. اس کی ایک اہم وجہ امیر ممالک کی جانب سے وسائل کی ضرورت سے زیادہ تخصیص اور دنیا بھر میں وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبردار کیا کہ جب تک ہم دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کر سکتے، آٹھ ارب آبادی کی حامل دنیا تناؤ اور بداعتمادی، بحرانوں اور تنازعات سے بھری پڑے گی۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے جی 20 سربراہی اجلاس میں بھی نشاندہی کی ، "عالمی خوشحالی اور استحکام کو اس بنیاد پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ غریب غریب تر ہوتا جائے اور امیر امیر تر ہوتا جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرنا چاہئے، مخلصانہ طور پر دوسرے ممالک کی ترقی میں مدد کرنا چاہئے، اور عالمی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے. یہ انسانیت اور کرہ ارض کی ہم آہنگ بقائے باہمی اور پائیدار ترقی کا راستہ ہے۔