فرانسیسی صدر ایما نویل میکرون نے ابھی حال
ہی میں امریکہ کا تین روزہ دورہ کیا ہے۔ میکرون کے دورہ امریکہ کا مقصد امریکی
افراط زر میں کمی کے ایکٹ کے تحت یورپی کمپنیوں کو چھوٹ دلانا تھا۔ تاہم انہیں اس
میں ناکامی ہوئی اور امریکہ اور یورپ کے درمیان تعلقات بھی مزید خراب ہو چکے
ہیں۔میکرون کا دورہ امریکہ ایک برائے نام سرکاری دورہ تھا، لیکن حقیقت میں یہ انصاف
کے حصول کے لیے تھا۔ اگست میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے افراط زر میں کمی کے ایکٹ
پر دستخط کیے، جس نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں اور دیگر سبز ٹیکنالوجیز کی پیداوار
اور تعیناتی کو فروغ دینے کے لئے اعلیٰ سبسڈی سمیت متعدد مراعات متعارف کروائیں. اس
سے یورپی ممالک میں شدید عدم اطمینان پیدا ہوا۔ یورپ کا کہنا ہے کہ اس بل میں تحفظ
پسندانہ پالیسیاں شامل ہیں جو ڈبلیو ٹی او کے قوانین سے متصادم ہیں۔ اس سے یورپی
صنعتی پیداوار مزید سکڑ جائے گی اور یورپی کمپنیاں امریکہ میں پیداوار منتقل کرنے
پر مجبور ہو جائیں گی۔میکرون کے تحفظات اور مطالبات کے
جواب میں بائیڈن نے کہا کہ امریکہ کو یورپ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن
وہ "درست ایڈجسٹمنٹ" کر سکتا ہے، تاہم انہوں نے مخصوص اقدامات کی وضاحت نہیں کی ہے۔
کچھ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق جب معاشی مفادات کی بات آتی ہے تو ، امریکہ کا پہلا
انتخاب ہمیشہ اپنا مفاد ہے ، اور یورپ کو اس کی واضح آگاہی ہونی
چاہئے۔
روس۔ یوکرین تنازع کے آغاز کے بعد سے یورپ
کو توانائی کے ایک بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کی وجہ امریکہ کی جانب سے روس
کے خلاف پابندیوں کے متعدد دور ہیں۔ اتحادی ہونے کا دعویٰ کرنے والے امریکہ نے اس
موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کیا۔ امریکہ کو روس۔ یوکرین تنازع پر
یورپی تعاون کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ "مسابقت" سے نمٹنے میں بھی یورپ کی ضرورت
ہے۔ یہ یورپ کو "چوسنے" کے مترادف ہے جبکہ اسے امریکی بالادستی کے لیے دوسروں کو
استعمال کرنا کہا جا سکتا ہے۔میکرون کے دورہ امریکہ سے قبل امریکی "پولیٹیکو" نے
پیش گوئی کی تھی کہ اگر امریکہ ، امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی سبسڈی کے
تنازع پر فرانس کے ساتھ کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچ سکتا تو ٹرانس اٹلانٹک تجارتی جنگ
ناگزیر ہو جائے گی۔