پانچ دسمبر کو جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بائربوک نے بھارت کا دورہ کیا ۔ اس سفر کا ایک مقصد بھارت کو روسی تیل کی قیمت کی حد مقرر کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہونے پر آمادہ کرنا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکرنے جرمن وزیر خارجہ سے بات چیت کے بعد کہا کہ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مستقبل میں بھی روس سے تیل خریدتا رہے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس یوکرین تنازع کے بعد سے یورپی یونین نےبھارت کے مقابلے میں روس سے زیادہ فوسل فیول خریدے ہیں۔
سبرامنیم جے شنکرکا کہنا ہے کہ رواں سال 24 فروری سے 17 نومبر تک، یورپی یونین کے پیچھے جو 10 ممالک ہیں ،یورپی یونین نے روس سے ان ممالک کے درآمد کردہ تمام ایندھن سے بھی زیادہ فوسل خریدا ہے۔ بھارت کے مقابلے میں، یورپی یونین نے روس سے تقریباً چھ گنا زیادہ تیل اور اس سے بھی زیادہ روسی گیس درآمد کی ہے۔بھارت روسی گیس درآمد نہیں کرتا، جب کہ یورپی یونین نے پہلے ہی تقریباً 50 بلین یورو کی روسی گیس درآمد کی ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے روس کے خلاف تیل کی قیمت کو محدود کرنے کے منصوبے میں شامل ہونے کے لیے کئی بار بھارت کو آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف، اس نے روس سے بڑی مقدار میں تیل درآمد کرنے پر بھارت کا نام لے کر بار بار تنقید کی ہے اور دوسری طرف،یہ بھی کہا کہ تیل کی قیمت کو محدود کرنے کے منصوبے سے بھارت کو فائدہ ہوگا، لیکن ان میں سے کوئی بھی حرب کارگر نہیں ہوا۔ تیل کی قیمت کو محدود کرنے پر بھارت کے علاوہ کچھ اور ممالک کی جانب سے بھی سرد رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ ہنگری اور بیلاروس دونوں ممالک کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبےپر عمل درآمد نہیں کریں گے۔