چین کے صدر شی جن پھنگ نے نو تاریخ کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ چین-عرب ممالک کے پہلے سربراہی اجلاس سے اہم خطاب کیا۔ جس میں انہوں نے مزید فعال چین-عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر پر زور دیا اور چین-عرب عملی تعاون کے لیے "آٹھ بڑے مشترکہ اقدامات" کی تجویز پیش کی۔ فریقین نے نتیجہ خیز دستاویز جاری کی، جس میں نئے عہد میں چین-عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے پر اتفاق کیا گیا، جو اس سربراہی اجلاس کی سب سے اہم سیاسی کامیابی ہے۔
موجودہ سربراہی اجلاس عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سےعرب ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر منعقد ہونے والا پہلا سربراہی اجلاس ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ چین-عرب تعاون فورم کی گہرائی اور وسعت کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا گیا ہے، جس سے نئی صورتحال میں باہمی فائدہ مند تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے فریقین کی توقعات کی عکاسی ہوتی ہے۔
دنیا اس وقت انتشار اور تبدیلی کے نئے دور میں داخل ہو رہی ہے، عالمی معیشت کی بحالی سست روی کا شکار ہے، علاقائی تنازعات اور ہنگامے اکثر ہوتے رہے، بعض بڑے مغربی ممالک یکطرفہ پسندی اور تسلط پسندی کی پیروی کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے امن اور ترقی میں مداخلت کا باعث بنتے ہیں۔ مزید قریبی چین-عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر سے فریقین کو اپنے اپنے ترقیاتی اہداف کی تکمیل میں مدد ملے گی۔
نئےعہد میں چین -عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کیسے کی جائے؟ سربراہی اجلاس میں چین نے نہ صرف خیالات بلکہ ایکشن پلان بھی پیش کیا۔
"ہمیں آزادی اور خودمختاری پر قائم رہنا چاہیے اور مشترکہ مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے" ،"ہمیں اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور جیت جیت کے تعاون کو فروغ دینا چاہیے"، "ہمیں علاقائی امن کو برقرار رکھنا چاہیے اور مشترکہ سلامتی حاصل کرنی چاہیے" ،"ہمیں تہذیبوں کے درمیان تبادلے کو مضبوط کرنا چاہیے اور افہام و تفہیم اور اعتماد کو بڑھانا چاہیے "۔ صدر شی کی جانب سے پیش کردہ یہ چار تجاویز چین اور عرب ممالک کے درمیان ہمہ جہت تعاون کو مضبوط بنانے کی عملی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں اور نئے عہد میں چین-عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی سمت کی نشاندہی کرتی ہیں۔
موجودہ سربراہی اجلاس میں صدر شی نے اس بات پر زور دیا کہ چین عرب ممالک کی آزادانہ طور پر ترقی کی راہ تلاش کرنے کی حمایت کرتا ہے جو ان کے اپنے قومی حالات کے مطابق ہو اور اپنے مستقبل اور تقدیر کو مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں رکھے۔ مسئلہ فلسطین کے بارے میں، جو مشرق وسطیٰ کے مسائل کا مرکز ہے، صدر شی نے زور دیا کہ عالمی برادری کو "دو ریاستی حل" پر پختہ یقین رکھنا چاہیے۔ چین فلسطین کو انسانی ہمدردی پر مبنی امداد فراہم کرتا رہے گا اور عوام کی زندگی سے متعلق منصوبوں پر عمل درآمد میں فلسطین کی مدد کرتا رہے گا۔ یہ چین کی منصفانہ بات کرنے اور منصفانہ کام کرنے کے مستقل موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے کہ "لفظ پتے ہیں عمل پھل۔" نئے عہد میں چین-عرب ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لیے فریقین کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ موجودہ سربراہی اجلاس میں صدر شی نے تجویز پیش کی کہ اگلے تین سے پانچ سالوں میں چین عرب فریق کے ساتھ "آٹھ بڑے مشترکہ اقدامات" کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس میں ترقی کی حمایت، خوراک کی حفاظت، صحت، سبز اختراع، توانائی کی سلامتی، تہذیبوں کے درمیان مکالمہ، نوجوانوں کی ترقی، اور سلامتی اور استحکام پر مبنی آٹھ شعبے شامل ہیں۔ یہ عرب ممالک کے ساتھ مل کر ترقی کرنے کے لیے چین کی مخلصانہ خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
چین کو عرب ممالک کی ضرورت ہے اور عرب ممالک کو بھی چین کی ضرورت ہے۔ نئے بلیو پرنٹ کی رہنمائی کے تحت چین اور عرب تعلقات کو بہتر اور اپ گریڈ کیا جائے گا تاکہ دونوں عوام کو بہتر فائدہ پہنچے اور عالمی امن اور ترقی میں مزید خدمات سرانجام دی جا سکیں۔