ا
اس ہفتے، قطر ورلڈ کپ میں انتہائی
متوقع سیمی فائنلز اور فائنلز شروع ہوں گے، اور اس ورلڈ کپ کے فاتح کا اعلان جلد
کیا جائے گا۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا کو اس کھیل پر ہی توجہ دینی چاہئے۔ آدھے ماہ سے زیادہ عرصے سے، کچھ مغربی میڈیا سنجیدگی سے کھیل پر توجہ نہیں
دے رہا : سی این این، واشنگٹن پوسٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ نے قطر کے نام نہاد لیبر
مسائل پر مسلسل سوالات اٹھائے ہیں ۔ بی بی سی نے ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب کو نشر
کرنے سے انکار کردیا، مغربی
میڈیا نے قطر ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے قطر کی کوششوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کھیلوں کے ذریعے حاصل ہونے
والے اتحاد کی تپش پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا اور فٹ بال کے ذریعے تعمیر کیے گئے رابطے
کے پل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔
قطر فٹبال ورلڈ
کپ کی میزبانی کرنے والا پہلا عرب ملک ہے۔ تاہم، جب سے اس نے اپنی بولی پیش کی ہے،
مغرب کی طرف سے اس پر بلا وجہ تنقید کی جا رہی ہے۔ اگرچہ قطری حکومت نے کئی بار
وضاحت دی ہے لیکن بعض مغربی میڈیا نے اسے نظر انداز کیا ہے۔
قطر کے نائب وزیر
اعظم اور وزیر خارجہ محمد نے مغربی میڈیا کی تنقید کو "منافقت" قرار دیتے ہوئے اس
کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ"کچھ لوگ اس بات کو قبول نہیں کر پا رہے کہ مشرق وسطیٰ کا
ایک چھوٹا ملک اس طرح کے عالمی ایونٹ کی
میزبانی کر سکتا ہے۔ اس کی ایک گہری وجہ "مغربی مرکزیت" ہے۔
دنیا کے اس اعلیٰ
ترین ایونٹ کی میزبانی اور دنیا میں ہنسی اور جوش لانے میں قطر کی کامیابی اپنے آپ
میں ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ، اس ورلڈ کپ نے
دنیا کو ایک حقیقی اور رنگین عرب دنیا دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے، جو مغربی
رپورٹوں کے تعصب سےیکسر مختلف ہے۔
کھیلوں کا تعلق کھیلوں سے ہے۔ قطر ورلڈ کپ،
نام نہاد "مغربی انسانی حقوق کے محافظوں" کا خیر مقدم نہیں
کرتا۔