15 سے 16 دسمبر تک چین کی سالانہ مرکزی اقتصادی ورک اجلاس بیجنگ میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں رواں سال کی معیشت کا جائزہ لیا گیا، موجودہ معاشی صورتحال کا تجزیہ کیا گیا اور 2023 میں معیشت کی راہ کا تعین کیا گیا۔ بیرونی دنیا کی توجہ اس جانب ہے کہ اگلے سال چینی معیشت کیسی ہوگی۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ "اگلے سال ہمیں استحکام کو اولین حیثیت دینی چاہیے اور استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی تلاش کرنا چاہیے" اور "معاشی آپریشن کی مجموعی بہتری کو فروغ دینا، کوالٹی اور مقدار کے سلسلے میں معیشت کی ترقی کو مضبوط بنانا، اور جامع طور پر ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیر کے لیے ایک اچھی شروعات کو ممکن بنانا چاہئیے "۔ یہ بیان اگلے سال کے معاشی کام کے لیے واضح رہنمائی فراہم کرتا ہے اور دنیا کے لیے ایک خوش خبر ی بھی ہے۔
"معاشی آپریشن کی مجموعی بہتری کو فروغ دیا جائے" - اجلاس میں اس بیان سے دنیا کو اعتماد دیا گیا ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طورپر، چین کی مسحتکم معاشی ترقی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو چین کی معیشت کو اب بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم یہ قابل ذکر ہے کہ چین کی معیشت لچک، صلاحیت اور قوت رکھتی ہے اور مختلف پالیسیوں کے موثر اثرات ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
کچھ غیر ملکی میڈیا نے نوٹس کیا کہ اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ ملکی مانگ کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جانی چاہئیں، اور کھپت کی بحالی اور توسیع کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ یہ ناگزیر طور پر مختلف ممالک کی کمپنیوں کو چینی مارکیٹ میں داخل ہونے کے مزید مواقع فراہم کرے گا، اور "چینی مارکیٹ کو ایک عالمی اور مشترکہ مارکیٹ بنائے گا۔"
"کھلے پن" ایک اور واضح پیغام ہے جو اجلاس کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اجلاس میں تجویز پیش کی گئی کہ بیرونی دنیا کے لیے اعلیٰ سطح کے کھلے پن کو فروغ دیا جائےگا، قواعد و ضوابط، نظم و نسق اور معیارات کے لحاظ سے کھلے پن کو مستحکم طور پر فروغ دیا جائے اور غیر ملکی سرمائے کو راغب کرنے اور اس کے استعمال کے لیے بھرپور کوششیں کی جائیں۔
چین کی ترقی کو دنیا سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور دنیا کی ترقی کو بھی چین کی ضرورت ہے۔ سال کے آخر میں، کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 20ویں قومی کانگریس کے بعد منعقدہ مرکزی اقتصادی ورک اجلاس نے دنیا کے سامنے چینی معیشت کی لچک، منڈی کی صلاحیت، جدت کی قوت اورہمت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یہ خوش آئند ہے کہ چینی طرز کی جدیدیت کو مسلسل فروغ دیا جائے گا اور دنیا کے لیے باہمی مفادات کی بنیاد پر مزید مواقع فراہم کئے جائیں گے۔