یہ 'تاریخی' معاہدہ حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو کیسے آگے بڑھاتا ہے؟ سی ایم جی کا تبصرہ

2022/12/21 11:20:38
شیئر:

کینیڈا کے شہر مونٹریال میں انیس تاریخ کی صبح   3 بجے ،جب اقوام متحدہ کے حیاتیاتی تنوع کے کنونشن میں فریقین کی 15ویں کانفرنس کے صدر نے لکڑی کے ہتھوڑے کو میز  پر بجایا، تو تمام جماعتوں کے نمائندے جو تقریباً 10 گھنٹے سے انتظار کر رہے تھے، کھڑے ہو گئے، تالیاں بجائیں، اور خوشی سے گلے ملے۔ انہوں نے کھون مینگ-مونٹریال گلوبل بائیو ڈائیورسٹی "فریم ورک"  کی منظوری پر مسرت کا اظہار کیا۔

یہ ایک تاریخی معاہدہ ہے، جو عالمی برادری کی طرف سے چار سال کے مشکل مذاکرات کے بعد طے پایا۔یہ عالمی حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے تمام فریقوں کے عقلی اور عملی ارادے اور عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ COP15 کے چیئرمین اور چین کے وزیر ماحولیات ہوانگ رن چھو نے کہا کہ "چار سال کے بعد، ہم آخر کار سفر کے اختتام کو پہنچ گئے ہیں"، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ"ہم بالآخر فطرت کے ساتھ امن قائم کرنے لگے ہیں"۔ عالمی حیاتیاتی تنوع میں شدید نقصان کے پیش نظر، پوری دنیا کا یہی خیال ہے کہ یہ "فریم ورک" فطرت کے تحفظ کے میدان میں "پیرس معاہدے" کی طرح ہے، جس سے  2030 تک اور اس سے آگے طویل عرصے میں عالمی حیاتیاتی تنوع کی حکمرانی کے لیے اہداف اور راستہ طے کیا گیا۔

یہ ایک "فریم ورک" ہے جو عزائم اور عملیت پسندی کو متوازن کرتا ہے، اور اس میں کل 23 مخصوص اہداف ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور تاریخی سنگ میل کا حامل ہدف یہ ہے کہ 2030 تک دنیا کی کم از کم 30فیصد زمین، اندرون ملک پانیوں اور سمندروں کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اس فریم ورک میں کہا گیا کہ قومی حیاتیاتی تنوع کی حکمت عملی اور ایکشن پلان کو نافذ کرنے کے لیے 2030 تک کم از کم 200 بلین امریکی ڈالرز سالانہ  متحرک کیے جائیں گے۔جن میں یہ شامل ہے کہ ترقی یافتہ ممالک  ترقی پذیر ممالک کو 2025 تک کم از کم 20 بلین امریکی ڈالر سالانہ فراہم کریں گے اور 2030 تک 30 بلین ڈالر سالانہ فراہم کریں گے۔ اس کے علاوہ، "فریم ورک" کے 23 اہداف میں خوراک کے عالمی فضلے کونصف کرنا اور 2030 تک انتہائی خطرناک کیمیکلز کے استعمال کونصف کرنا بھی شامل ہے۔

چین نے، COP15 کے چیئر مین ملک کے طور پر، تمام جماعتوں کو متحد اور ہم آہنگ کرنے اور اجلاس کے عمل کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ چین کی کوششوں کو اجلاس میں موجود تمام فریقین نے سراہا ہے۔