نئے سال کے آغاز پر جب ایشیا و بحرالکاہل کے عوام امن و امان کے لیے دعا کر رہے تھے تو جاپانی وآسٹریلوی وزرائے اعظم نے ورچوئل ملاقات کی جب کہ امریکی اور جاپانی وزرائےدفاع نے بھی آن لائن میٹنگ کی۔یہ دونوں ملاقاتیں سرد جنگ کے نظریات سے لبریز ہیں،امریکہ نے جاپان اور آسٹریلیا سمیت اتحادیوں کو اکٹھا کر کے جھوٹ پھیلاتے ہوئے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی جس سےعلاقائی امن و امان پر برا اثر پڑاہے۔
چھ جنوری کو جاپان اور آسٹریلیا کی بات چیت میں باہمی مفادات پر مبنی باہمی دسترس کےسمجھوتے پر دستخط کیے گئے اور چین کے اندرونی امور پر غیرذمہ دارانہ بیانات دیئےگئے ۔امریکہ کے حکم پر عمل کرنے والے دونوں ممالک نے بحرجنوبی چین کی پرامن صورتحال منتشر کرنے کی کوشش کی ، جب کہ سات تاریخ کو امریکہ -جاپان ملاقات میں فریقین نے جاپان- امریکہ اتحاد کی اہمیت پر زور دیا اور نام نہاد "چین کے خطرے " سے نمٹنے کے لیے نئے دفاعی سمجھوتے پر دستخط کیے۔یہ محض دونوں ممالک کا اپنے فوجی طاقت کو مضبوط بنانے کا ایک بہانہ ہے۔جاپان- امریکہ اتحاد ، سردجنگ کی پیداوار ہے ۔ آخر دونوں ممالک اپنے فوجی اخراجات کو بڑھاتے ہوئے ایشیا و بحرالکاہل میں کرناکیا چاہتے ہیں؟
امریکہ،برطانیہ اورآسٹریلیا کے درمیان ایٹمی آبدوز تعاون نے ایٹمی پھیلاؤ اور اسلحے کی دوڑ کے خطرات کو بڑھایا ہے۔جاپان نے ایٹمی پاور اسٹیشن کے آلودہ پانی کو سمندر میں خارج کرنے کی کوشش کی جو خطے کے ماحول اور جانداروں کی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔پھر امریکہ ،جاپان اور آسٹریلیا نے بار بار مشترکہ فوجی مشقوں کا اہتمام کیا۔ یہ تمام واقعات امریکہ ،جاپان اور آسٹریلیا کی جانب سے علاقائی امن و امان کو نقصان پہنچانے کا ثبوت ہیں۔