6 جنوری کو امریکا میں متعدی امراض کے حوالے سے ایک مستند تنظیم ،انفیکشس ڈیزیز
سوسائٹی آف امریکہ (آئی ڈی ایس اے) نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا
جس میں امریکا کی جانب سے چینی سیاحوں کے داخلے پر عائد پابندیوں پر اعتراضات کرتے
ہوئے کہا گیا کہ "ان پابندیوں سے نہ صرف وائرس کے پھیلاؤ کو محدود کرنے پر کچھ
زیادہ اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس سے عالمی سطح پر متاثرہ کیسز میں اضافے کے اثرات کا
مکمل اندازہ لگانے میں بھی کوئی مدد نہیں ملے گی"۔یورپین سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ
پریوینشن جیسے پیشہ ور اداروں نے واضح کیا ہے کہ چین سے آنے والے مسافروں پر
پابندیاں غیر معقول ہیں۔ کونسل انٹرنیشنل یورپ، جو یورپ کے 500 سے زائد ہوائی اڈوں
کی نمائندگی کرتی ہے، اس نے بھی چین کے خلاف داخلے پر لگائی جانے والی پابندیوں کی
مذمت کی ہے۔
امریکی سیاست دانوں کو سائنس اور استدلال پر مبنی ان آوازوں کو
سننا چاہیے۔ امریکہ کی جانب سے "وائرس کارڈ" کھیلنے کی کوشش نے اس کے عقلیت مخالف
رویے اور وبا کی سیاست کو بے نقاب کر دیا ہے۔
کووڈ کے خلاف جنگ سائنس کی جنگ ہے
لیکن چینی سیاحوں پر امریکی پابندیاں اس کے برعکس ہیں۔ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 4
جنوری کو جاری کی جانے والی خبر کے مطابق چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی جانب سے
فراہم کردہ وائرس کےجینیاتی مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں وائرس کی کوئی نئی
قسم یا اس کے اہم تغیرات نہیں پائے گئے ہیں۔
امریکی سیاستدانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گزشتہ تین سالوں میں ان کے سائنس دشمن رویے کی امریکی عوام نے بھاری قیمت چکائی ہے -امریکہ میں 100 ملین سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں ، 1.08 ملین سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 250،000 "کووڈ یتیم" سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیائی افراد کے خلاف نسلی امتیاز اور نفرت پھیل گئی ہے جس نے امریکی معاشرے کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے۔ 5 جنوری کو نیو یارک ٹائمز نے نشاندہی کی کہ امریکہ کا موجودہ طریقہ کار بھی بالکل ویسا ہی ہے جیسا 2020 کے اوائل میں چین کے خلاف اختیار کیا گیا تھا جو کہ نسل پرستانہ پالیسی ہے۔